|

وقتِ اشاعت :   September 9 – 2020

وفاقی حکومت نے ملک بھر میں کورونا وائرس کے باعث بند تعلیمی ادارے 15 ستمبر سے کھولنے کا حتمی اعلان کر دیا۔گزشتہ روز وفاقی وزیرتعلیم نے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر فیصل سلطان کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ نیشنل کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر نے تعلیمی ادارے کھولنے کی حتمی منظوری دے دی ہے۔انہوں نے کہا کہ 13 مارچ کو اسکول بند کرنے کا مشکل فیصلہ کیا تھا، کورونا کے دوران بچوں کے امتحانات لینا ناممکن تھا۔ ماہرین کی رائے، تھنک ٹینکس رپورٹ اورخطے کی صورتحال کا جائزہ لیا جس کے بعد تعلیمی اداروں کو بتدریج کھولنے کا فیصلہ کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 15 ستمبر سے یونیورسٹیاں اور کالجز کھولے جائیں گے جبکہ 9 ویں اور10 ویں جماعت کے لیے بھی اسکول کھولے جا رہے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ چھٹی سے آٹھویں کلاسز کے اسکول 23 ستمبر سے کھلیں گے جبکہ 30 ستمبر کو حالات کا جائزہ لینے کے بعد پرائمری اسکول کھولے جائیں گے۔شفقت محمود نے کہا کہ والدین کا بہت شکریہ جنہوں نے 6 ماہ کا وقت بہت تحمل سے گزارا۔ان کا کہنا تھا کہ مدارس، ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ سمیت تمام تعلیمی اداروں پر ایس اوپیزکا اطلاق ہوگا، خلاف ورزی کی صورت میں کارروائی ہو گی۔

اس موقع پر معاون خصوصی صحت ڈاکٹر فیصل سلطان نے کہا کہ حالات کا جائزہ لینے کے بعد تعلیمی اداروں کو بتدریج کھولنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ملک میں کورونا سے متعلق حالات تسلی بخش ہیں،اسکولوں میں سماجی فاصلے کا بھی خیال رکھا جائے گا۔کلاس روم میں بچوں کی تعداد کو کم رکھنا ہو گا،آدھے بچے ایک دن اور آدھے بچوں کو دوسرے دن اسکول بلایاجائے۔ تعلیمی اداروں میں ماسک کا استعمال لازمی کیا جائے، یونیورسٹی اور کالجز لیب میں زیادہ رش سے گریز کیا جائے۔واضح رہے اس سے قبل وفاقی وزیر شفقت محمود کی زیر صدارت بین الصوبائی وزراء تعلیم کا اجلاس ہوا جس میں تعلیمی اداروں کے لیے آئندہ کا لائحہ عمل طے کیا گیا۔

اجلاس میں تمام صوبائی وزرائے تعلیم نے شرکت کی جبکہ وزارت صحت کے حکام نے کورونا سے متعلق بریفنگ بھی دی۔اجلاس میں یہ بھی طے کیا گیا کہ بڑی کلاسز کو کھولنے کے بعد کورونا کو مانیٹر کیا جائے گا جبکہ کورونا سے نمٹنے کے لیے سختی سے ایس او پیز پر عمل کیا جائے گا۔کورونا کے پیش نظر ایک ہفتے بعد چھٹی سے آٹھویں کلاسز کی سرگرمیوں کا آغاز ہو گا۔ طلبا کو ماسک کے ساتھ تعلیمی اداروں میں داخلہ یقینی بنانے کی ہدایت کی جائے گی۔حقیقت یہ ہے کہ کورونا کے باعث حالات نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں خراب ہوئے، بڑے پیمانے پر جانی نقصان اٹھانا پڑا جوکہ جنگی حالات سے کم نہیں تھا۔

جہاں پوری دنیا کا نظام جام ہوکر رہ گیا تھا، معاشی صورتحال کے باعث دنیا کی معیشت بیٹھ گئی تھی مگر اس وباء کو کنٹرول کرنا سب کی ترجیح تھی کہ انسانی جانوں کو بچایاجاسکے اس کے لیے حکمت عملیاں مرتب کی گئیں اور سخت ترین لاک ڈاؤن کرتے ہوئے عوام کو گھروں تک محدود کر دیا گیا جبکہ دنیا بھر میں معاشی سرگرمیاں معطل ہونے کی وجہ سے بڑی تعدادمیں لوگوں کو روزگار سے ہاتھ دھونا پڑا، بڑی صنعتوں کو مالی نقصان اٹھانا پڑا۔ان حالات میں انسانی جانوں پر کسی صورت رسک لینے کیلئے کوئی بھی ملک تیار نہیں تھا۔ اسی طرح پاکستان میں بھی لاک ڈاؤن کیا گیا۔

البتہ زیادہ سخت لاک ڈاؤن کی نوبت نہیں آئی مگر تعلیمی ادارے مکمل طور پر بند کردیئے گئے۔ یہ ایک بہترین فیصلہ تھا اور اب صورتحال کنٹرول میں ہے مگر خطرہ ٹلا نہیں ہے لہٰذا حکومت کو تعلیمی اداروں میں ماسک سمیت سینیاٹائزر کے استعمال کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ سماجی فاصلے برقرار رکھنے کے لیے روزانہ کی بنیاد پر چیکنگ کیلئے ٹیم تشکیل دینی ہوگی تاکہ مقامی انتظامیہ اس کا جائزہ لے اور تعلیمی اداروں کی انتظامیہ کو سختی سے پابندکرے کہ کورونا وائرس سے بچاؤ کیلئے ایس اوپیز پر عمل کریں جو بھی غفلت کامظاہرہ کرے اس کیخلاف سخت کارروائی کی جائے تاکہ بچوں کی زندگی کو محفوظ بنایاجاسکے۔