|

وقتِ اشاعت :   September 12 – 2020

بلوچستان پیس فورم کے چئیرمین نوابزادہ حاجی میر لشکری رئیسانی نے کوئٹہ میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں سیاست اور ارتقاء کے عمل کو ایک خاص مقصد کیلئے روکا گیا ہے یہی وجہ ہے کہ معاشرہ سیاسی‘ معاشی اور معاشرتی گراوٹ کا شکار ہے اب لوگ سیاست معاشرتی امور اورمعیشت میں مختصر راستہ (شارٹ کٹ) تلاش کرتے ہیں۔

محترم لشکری رئیسانی بلوچستان کی سیاست اور معاشرت پر گہری نظر رکھتے ہوئے گائے بگائے اس صورت حال کی عکاسی کرتے رہتے ہیں، خود بھی صاحب علم ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کی باتیں علمی اور تحقیقاتی بنیادوں پر ہوتی ہیں اور وہ اپنے خطابات میں ہمیشہ درس و تدریس اور شعوری سیاست کے فروغ پر زور دیتے ہوئے خود بھی اس کے لئے کوشاں رہتے ہیں، ان کی جانب سے اب تک مختلف کالج اور یونیورسٹیز میں سینکڑوں کی تعداد میں کتابوں کا عطیہ دینا لائق تحسین اقدام ہے اور یہ بات ان کی علم دوستی کو ظاہرکرتا ہے۔

مجھے یاد نہیں پڑتا کہ قریبی ایام یا سالوں میں بلوچستان میں کسی بھی شخصیت نے اس جانب توجہ دی ہے اور نہ ہی ان کی سیاست کا محور”علم دوستی“ رہی ہے بقول حاجی لشکری رئیسانی ہمارے عوام کے ساتھ ساتھ ہمارے صوبے کے سیاستدان بھی اب سیاست کے میدان میں اپنے معاشرتی امور اورمعیشت کی بہتری کے لئے شارٹ کی تلاش میں رہتے ہیں۔

ان کی یہ بات ایک ہزار فیصد درست اور دل کو لگنے والی ہے انہوں نے اپنے صوبے کی صورت حال کی جس طرح سے تصویر کشی کی ہے اور گائے بگائے کرتے رہتے ہیں اس سے کوئی بھی ذی شعور انسان انکار نہیں کر سکتا۔ لیکن افسوس اس بات پر کہ اس ”شارٹ کٹ“ پالیسی کے بارے میں ہم بخوبی جانتے ہیں لیکن آج ہم اپنی سوسائٹی کا ایک تنقیدی جائزہ لیں تو یہ حقیقت ہمارے سامنے آجاتی ہے کہ آج ہمار املکی سطح سے لے کر صوبوں کی سطح تک تعلیمی صورت حال دگرگوں ہے یا یوں کہئے کہ اسے ایسا ماحول مہیا کیا گیا ہے کہ اس سے نکلنے کی کوشش کرنے والے یا تو تعداد میں انتہائی کم نظر آتے ہیں یا ہماری سوسائٹی ان سے بیگانہ نظر آتی ہے یا انہیں مجبور کیا گیا ہے کہ وہ ایسی سوچ رکھنے والی شخصیتوں یا سیاستدانوں یا اساتذہ سے دور رہیں تاکہ ہماری سوسائٹی میں کوئی سدھار نہ آسکے،اس کی وجہ ہے کہ اگر سوسائٹی کی سطح پر معاشرے میں سدھار آگئی،لوگ شعور کی بنیاد پر سیاست اور تعلیمی میدان میں اپنا لوہا منوانے لگے تو ہمارے سیاستدانوں کی دکانداری ہی ختم ہوگی۔

صوبے میں آج ان کی منفی اور شارٹ کٹ سیاست اور سوچ نے صوبے کو جس طرح پسماندہ اور مسائل کا شکار بنادیا ہے ملک کی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ آج ہم ملک کی سیاست‘ کاروبار‘ تعلیم کے شعبوں پر نظر دوڑائیں تو یہ ہمیں جمود کا شکار نظر آتے ہیں ملک کی سیاست خود ہچکولے کھاتی نظر آتی ہے الزامات در الزامات کی بوچھاڑ،کرپشن کی سیاست اور بات چیت کی کھلے عام الیکٹرونک او رپرنٹ میڈیا پر تشہیر نے نوجوانوں کی ذہنی صلاحیتوں کو زنگ آلود کردیا ہے،ان کی سوچ انتہائی محدوود اور سطحی رہ گئی ہے ان میں ان کا کوئی قصور اور ہاتھ نہیں بلکہ اس میں سب سے گہرا ہاتھ ان منصوبہ سازوں ”دو نمبریوں“ کا ہے جو آج کل ملک کی سیاست سے لے کر زندگی کے ہر شعبے میں اپنی جگہ بنا چکے ہیں۔ زندگی کا کونسا ایسا شعبہ ہے جو ان ”دو نمبر“ لوگوں کے ہاتھوں محفوظ رہا ہے

انہوں نے اپنی گندی اور کاروبار ی سوچ کو زندگی کے ہر ایک شعبے میں سمو دیاہے یہی وجہ ہے کہ آج ہمارا معاشرہ شدید اخلاقی گراوٹ اور تنزلی کا شکار ہے ’جھوٹ‘ مکاری اور چالبازی ہمارے وجود میں اس طرح سرایت کر چکی ہے کہ آج ہم نہ تو ایک اچھا مسلمان بن سکتے ہیں اور نہ ہی ایک اچھا انسان،بس گوشت پوست کا ایک حرکت کرنے والا”جانور“ بن چکے ہیں۔ حاجی لشکری رئیسانی صاحب کی نجی محفلوں میں بیٹھنے کا بارہا شرف حاصل رہا ہے ان کو ہمیشہ راست بازی کی سیاست اوراپنی سوسائٹی یا معاشرے کی برائیوں پر بات چیت کرتے ہوئے پایا ہے۔

یہ حاجی لشکری رئیسانی صاحب جیسے دیانتدار اور راستہ گو شخصیت کی بد قسمتی ہے کہ انہوں نے ایک ایسے ملک اور صوبے میں آنکھ کھولی ہے کہ انہیں اپنے چاروں اطراف جھوٹ‘ مکاری اور چالبازی کے علاوہ کچھ نہیں ملتا یقیناً ہمارے معاشرے میں، ہمارے لوگوں میں سب کے سب جھوٹے اور فریبی نہیں لیکن ان کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ آج ہم اپنے ار گرد نظر دوڑائیں تو ہمیں دو نمبری سے لے کر دس نمبری کا مزاج رکھنے والے افراد بکثرت ملیں گے جو وائٹ کالر کرائم بھی کریں تو ان کا نام سامنے نہیں آتا،وہ اپنے معاشرے میں یا اپنے محلے میں غیر پسندیدہ ہی کیوں نہ ہو اسے ہمارے ادارے اور اداروں سے وابستہ افراد انہیں ایسے اونچے مقام پر فائز کرتے ہیں کہ جہاں اسے صرف اور صرف”خوری“ نظر آتا ہے اس کے علاوہ کچھ نہیں۔

ہمارے عوام کی زندگیاں کس طرح سے ہیں یہ کس طرح سے رہتے ہیں ان کی ترقی کی شرح کتنے فیصد ہے ا س سے ان دو نمبر لوگوں کو دور دور تک کا واسطہ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بلوچستان میں ایک ”جمود“ کی سی صورت حال ہے۔ تعلیمی مسائل پر نظر دوڑائیں ہماری بچیاں احتجاج کیلئے سڑکوں پر نکلتی ہیں پھر بھی ان کے مسائل پر توجہ نہیں دی جاتی،اس پر مجبوراً انہیں بھوک ہڑتال جیسے سخت قدم اٹھانے پر مجبور کیا جاتا ہے، ان بچیوں نے اپنی دلیری کی حد تک کردی انہوں نے بھوک ہڑتال کرکے اپنا لوہا منوایا اور ثابت کردیا کہ اگر متحد ہو کر ڈٹا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ ان کے مسائل حل نہ ہوں۔ سرکاری محکموں کی صورت حال پر نظر دوڑائیں یا شعبہ صحت کے بارے میں روشنی ڈالیں ”آوے کا آوہ“ بگڑا نظر آتا ہے۔سول ہسپتال میں چند ایک شعبے فعال ہیں یہاں بھی مریض رل رہے ہوتے ہیں۔

ادویات کے بارے میں کیا بتائیں کہ ایم ایس ڈی میں کس طرح کی دوائیاں خریدی گئیں ہیں سب ناقص اور غیر معروف کمپنیوں سے خریداری کرکے عوام کی جان سے کھیلنے کی دیدہ دانستہ کوشش کی گئی ہے۔سابق صوبائی وزیر صحت نصیب اللہ مری نے اسمبلی کے فلور پر اس بات کا انکشاف کیا کہ سابقہ ادوار میں سرکاری طورپر جو ادویات کروڑوں روپوں کی خریدی گئیں وہ انتہائی ناقص اور استعمال کے قابل نہیں۔ان کے اس اعتراف کو بھی ہر سطح پر سنی ان سنی کردی گئی، کوئی قانون حرکت میں نہیں آیا نہ کسی کو قید ہوئی نہ ہی پھانسی‘ اللہ اللہ خیر سلا‘ بات آئی اور گئی۔

اسی طرح کوئٹہ میں سیوریج لائن کے لئے کوئٹہ بھر کی معروف سڑکوں کی کھدائی کرکے تنگ سڑکوں کی چوڑائی کو مزید کم کرکے ایک نالہ بنایا گیا جس کے اوپر سیمنٹ کے سیلب رکھے گئے اب تک یہ نالہ نہ تو شہر کی نکاسی آب کے کام آسکا اور نہ ہی اس گندے پانی کو اسپینی روڈ تک لے جا کر ٹریٹمنٹ کرکے دوبارہ قابل استعمال بنانے کا عمل شروع کیاجاسکا۔مطلب سب دو نمبری سے فنڈ ضائع کیا گیا، اللہ جھوٹ نہ بلوائے یہ فنڈ میرے سننے کے مطابق ستر ارب تک تھی جس سے ایک ناقص نالہ بنا کر منصوبے کو اس میں دفن کردیاگیا،آج تک کوئی ملزم پکڑا گیا نہ کوئی ”سفید پوش ڈاکو“۔ شہر میں ٹریفک کی صورت حال انتہائی نہ گفتہ بہ ہے سڑکیں انتہائی تنگ ہیں ٹریفک کی شرح میں بے پناہ اضافہ ہوچکا ہے ایک گھر میں لگ بھگ تین سے پانچ گاڑیاں زیر استعمال لائی جارہی ہیں

اب یہ سڑکیں ان گاڑیوں کو سنبھالنے میں مکمل فیل نظر آتی ہیں۔ایک نوزائیدہ سڑک”ریلوے کی اراضی سے لے کر جناح روڈ کو زرغون روڈ سے ملایا گیا اب یہ بند کردیا گیا، مطلب عوام کی سہولت کیلئے کوئی اقدام دیکھنے کونہیں مل رہا۔ کوئٹہ شہر کو ملانے کیلئے صرف اورصرف سریاب روڈ اور ایئر پورٹ ہی ہیں جن پر ٹریفک انتہائی زیادہ ہوچکی ہے، جائنٹ روڈ کو کمرشل بنا کر ایک لنک روڈ کو بھی معروف شاہراہ بنا دیا گیا یہاں ایک عجیب و غریب پل جو کہ بے نظیر بھٹو کے نام سے منسوب ہے،بنایاگیا ہے جس میں انجیئنرنگ کی اعلیٰ مثال قائم کرکے چوراہا بمعہ ٹریفک سگنل دیا گیا،یہ سگنل آج تک روشن نہ ہوئے کیونکہ یہ تکنیکی طورپر غلط ڈیزائن کیا گیا ہے جہاں چوراہا دے کر”اوور ہیڈ برج“ کی افادیت ختم کردی گئی، اس کے فنڈز میں بھی ایک سابق وزیراعلیٰ نے ہاتھ مارتے ہوئے ٹھیکیدار سے بھاری رقم لی،اب یہ پل ایک طرف سے ڈبل اور ایک جانب سے سنگل ٹریک میں بنایا گیا جہاں آئے روز ٹریفک معطل رہتی ہے یا پھر وی آئی پی موومنٹ میں اسے مکمل بند کردیا جاتا ہے،یہ فنڈ بھی کرپشن کی نذر ہوگئی، کسی کو ہتھکڑی تک نہ لگی۔

مقصد کہنے کا یہ کہ بلوچستان کو اس کے دارالحکومت کو لوٹنے اور برباد کرنے میں اگر ہم تقابلی جائزہ لیں تو اسے برباد کرنے میں ہمارے”اپنوں“ کا ہاتھ زیادہ شامل ہے، اسے کسی غیر نے باہر سے آکر برباد نہیں کیا ”اپنوں“ نے اس دارالحکومت کے مسائل پر توجہ نہ دے کر اسے پنجاب کے ایک تحصیل جیسا بنا کر چھوڑا ہے،آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔

اب جام کمال صاحب وزیراعلیٰ کی جانب سے یہ نوید سنائی گئی ہے کہ شہر کو باقی یا شہروں سے ملانے کیلئے اضافی لنک سڑکیں نکالی جائیں گی اس میں کتنا وقت لگے گا اس بارے میں بتا نہیں سکتے،اللہ کرے کہ وزیراعلیٰ موصوف اپنے اعلانات پر عمل درآمد کرکے عوام کی دعائیں لیں کیونکہ کوئٹہ میں ٹریفک کی صورت حال انتہائی مخدوش ہے۔ اب تک سکولوں کی چھٹیاں چل رہی ہیں جب سکول کھل جائیں گے تو ٹریفک کی صورت حال مزید خراب ہوجائے گی۔

کوئٹہ شہر میں ”انڈر پاسز“ اور ”یوٹرن“ کی شدید ضرورت ہے انڈر پاسز بنانے سے چوراہوں پر ٹریفک کا دباؤ بھی ختم ہوگا اور ٹریفک رواں دواں رہے گی جبکہ بعض اہم سڑکوں کے فٹ پاتھوں کو روڈ میں شامل کرکے ”یوٹرن“ بنائے جا سکتے ہیں جہاں لوگوں کو اپنی گاڑیاں موڑنے کی سہولت میسر آئے گی۔

اللہ کرے جام کمال خان کے دل و دماغ میں ہماری یہ گزارشات آجائیں اور وہ ان گزارشات پر عملی اقدامات کریں تاکہ لوگ ان کی کارکردگی کی تعریف کریں،ان انڈر پاسز کی ضرورت امداد چوک‘ زرغون روڈ‘ سائنس کالج چوک‘ جناح روڈ چوک‘ چمن پھاٹک‘ بروری روڈ‘ سبزل روڈ سمیت دیگر چھوٹی بڑی سڑکوں پرہے۔