|

وقتِ اشاعت :   September 19 – 2020

ملک کے دیگر صوبوں کے دارالحکومت کی طرح کوئٹہ جو چند لاکھ افراد کے لئے بنایا گیا تھا اب اس میں لاکھوں افراد نے کوئٹہ شہر کے گردونواح میں رہائشی اسکیمات تعمیر کرکے اس شہر کی آبادی میں اچانک اضافہ کردیا جس کے سبب اس شہر کی قائم پرانی سڑکیں اب شہرکی ٹریفک کا بوجھ سنبھالنے میں ناکام نظر آتی ہیں۔ دن کے اوقات میں سریاب روڈ سے شہر تک آتے آتے دو گھنٹے سے زائد کا عرصہ لگ جاتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ سریاب سے جناح روڈ تک شہر کی سڑک پر بے پناہ رش رہتاہے خصوصاً یونیورسٹی چوک‘ سدا بہار ٹریمینل کے نزدیک‘ اے جی آفس چوک‘ سول ہسپتال چوک سمیت اسپنی روڈ سے بے نظیرپل‘ وائٹ روڈ چوک پر دن کے اوقات میں ٹریفک کی روانی شدید متاثر نظر آتی ہے۔

ایسے میں کسی مریض کو سول ہسپتال پہنچانا مقصود ہو تو آپ اس کرب کی صورت حال کا اندازہ بخوبی لگا سکتے ہیں۔ایک زمانہ تھا کہ کوئٹہ شہر میں موسم گرما میں اچانک آبادی میں اضافہ کی صورت حال دیکھنے کو ملتی تھی اس کی وجہ سندھ کے قریبی شہروں سے لوگوں کی کوئٹہ میں محض دو ڈہائی ماہ کی رہائش سے صورت حال تھوڑی سی تبدیل ہوجاتی تھی،موسم سرما کے شروع ہوتے ہی یہ افراد دوبارہ سندھ کے اپنے آبائی شہروں کو لوٹ جاتے تھے اور شہر پر انسانوں کا پریشر کم ہونے کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا تھا لیکن آج صورت حال یکسر مختلف نظر آتی ہے چاہے سردیاں ہو یا گرمیاں‘ کوئٹہ شہر میں ٹریفک کا دباؤ انتہائی حد تک بے قابو نظر آتا ہے۔

کوئٹہ شہر کے گردونواح میں افغان مہاجرین کی لاکھوں کی تعداد میں آباد کا ری نے اس شہر کے حسن کو مزید دھندلا کردیا ورنہ ایک زمانہ یہ بھی تھا کہ یہ شہر ”چھوٹا لندن“ کہلاتا تھا۔ 1935کازلزلہ آنے سے قبل کی کوئٹہ شہر کی سڑکوں کی تصاویر آج بھی موجود ہیں یقیناً بلڈنگوں کی طرز تعمیر سے یوں لگتا تھا کہ جیسے یہ انگلینڈ کا کوئی خوبصورت گاؤں ہے اب اس شہر کا حلیہ اس قدر بگڑ چکا ہے کہ اب یہ تمیز کرنا بھی باقی نہیں رہا کہ کون سا علاقہ رہائشی ہے اور کون سا علاقہ کمرشل۔رہائشی علاقوں میں کاروباری حضرات نے لینڈ مافیا سے مل کر شہر کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا یہی وجہ ہے کہ حکومت اس شہر میں ٹریفک کے نظام کوسنبھالنے میں ناکام نظر آتی ہے۔

شہر کی تنگ وتا ریک گلی کوچوں میں بلڈنگ کوڈ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اونچی اونچی عمارتیں پلازے قائم کرنے سے شہر کی خوبصورتی غارت ہوگئی ہے۔ آج کوئٹہ شہر میں آبنوشی کی شدید قلت دیکھنے کو ملتی ہے زرغون روڈ سابقہ (احمد رضا شاہ پہلوی روڈ)، سول ہسپتال کے عقب والی سڑک اب ٹریفک کے ہاتھوں انتہائی تنگ نظر آتی ہے، مطلب یہ شہر اب قابو میں نہیں آرہا سابقہ حکومتوں نے صرف اور صرف جناح روڈ سے کوئلہ پھاٹک تا ائیر پورٹ روڈ کی چوڑائی کرکے اس کی تزئین پر بھرپور توجہ دی اور سریاب جو کہ آبادی کے لحاظ سے کوئٹہ کی قدیم آبادی والا علاقہ ہے کو سراسر نظرانداز کردیا۔

اب وزیراعلیٰ جام کمال عالیانی نے سریاب روڈ کو بھی چوڑ اکرنے کیلئے اقدامات کرنا شروع کردئیے ہیں وقتاً فوقتاً وہ اجلاس منعقد کرکے صورت حال کا جائزہ لیتے نظر آرہے ہیں۔ گزشتہ دنوں انہوں نے عالمو چوک‘گاہی خان چوک اور سریاب روڈ پر یوٹرن کے منصوبوں کا جائزہ لیتے ہوئے شہر بھر میں درپیش ٹریفک کے مسائل اور ان کے حل کیلئے مختلف علاقوں میں ٹریفک کے دباؤ کو کم کرنے کیلئے فلائی اوور اور انڈر پاس کے مجوزہ منصوبوں کا جائزہ لیتے ہوئے طے کیا گیا کہ محکمہ مواصلات میزان چوک تا اسپینی روڈ’حبیب نالہ کے اوپر ایکسپریس وے کی تعمیر کے منصوبے کا پی سی ون تیار کرے گا۔

اور عالمو چوک ائیر پورٹ روڈ پر ٹریفک کے دباؤ کو کم کرنے کے لئے یوٹرن بنایا جا ئے گا جبکہ سریاب روڈ پر مستونگ اور سبی کی ٹریفک کو باضابطہ بنانے کے لئے بھی پولیس ٹریننگ کالج کے سامنے اور گاہی خان چوک پر ٹریفک کی آمد و رفت کی بہتری کیلئے یوٹرن بنایاجائے گا وزیراعلیٰ نے اس موقع پر کہا کہ صوبائی حکومت کوئٹہ شہر کو مزید وسعت دینے کے لئے سڑکوں کی حالت بہتر بنانے اور انہیں مزید چوڑا کرکے ٹریفک کے دباؤ کو کم کرتے ہوئے ٹریفک جام رہنے کی صورت حال کو ختم کرنا چاہتی ہے۔ کیونکہ شہر آنے اور جانے والی سڑک پر ٹریفک کو باضابطہ بنانا ناگزیر ہوچکا ہے۔

انہوں کہا کہ حبیب نالہ پر ایکسپریس وے کی تعمیر سے شہر سے باہر جانے والی ٹریفک کے لئے ایک متبادل سڑک دستیاب ہو سکے گی جس سے اندرون شہر ٹریفک کے دباؤ میں کمی آئے گی جبکہ ائیر پورٹ روڈ اور سریاب روڈ پر یوٹرن کی تعمیر سے بھی نمایاں تبدیلی آئے گی اور ٹریفک کو رواں دواں رکھنے میں مدد ملے گی۔وزیراعلیٰ کی جانب سے شہر کی صورت حال پر نوٹس لینے کو یقیناً دل کرتا ہے کہ انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ان کی تعریف کی جائے کہ یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ ملک میں پہلی بار وفاقی حکومت کی سطح پر وزیراعظم عمران خان اور وزیراعلیٰ کی حیثیت سے جام کمال عالیانی آئے روز میٹنگز منعقد کرتے نظر آتے ہیں۔

وزیراعلیٰ کی حیثیت سے انہوں نے وفاقی دارالحکومت کا بہت کم دورہ کیا وہ بھی انتہائی ناگزیر حالات میں‘ انہیں وفاقی دارالحکومت جانا پڑتا ہے لیکن انہوں نے اسلام آباد کو اپنا مرکز نہیں بنایا بلکہ ہمیشہ صوبائی دارالحکومت میں نظر آتے ہیں جو یقیناً خوش آئند اور قابل تعریف اقدام ہے اور پھر بلوچستان کی صورت حال سے متعلق اجلاس کے انعقاد اور ان پر لائحہ عمل طے کرنے کا عمل بھی یقیناً قابل تعریف ہے۔کوئٹہ شہر کی اندرونی سڑکوں پر ٹریفک کی وجہ سے شہری انتہائی پریشان حال ہیں شہر میں کوئی ایک مثال نہیں دی جا سکتی کہ جہاں ٹریفک وقفے وقفے سے جام نہیں رہتا ہو،سول ہسپتال تک کسی ایمر جنسی کی صورت میں جانا انتہائی مشکل امر ہے۔

جناح روڈ‘ لیاقت بازار‘ قندہاری بازار‘ گوالمنڈی تا سریاب بس اڈہ‘ سرکی روڈ سمیت تمام چھوٹی بڑی سڑکوں پر ٹریفک کا جام رہنا روز کا معمول بن گیا ہے بلندوبالا پلازوں نے سڑکوں کو اور بھی مسدود کرکے رکھ دیا ہے کیونکہ ان کے مالکان کی حتیٰ الوسع کو شش ہوتی ہے کہ ان کی طرف سے ایک انچ ضائع نہ ہو، سرکار کی دو فٹ زمین انکے احاطے میں آجائے تو کوئی بڑی بات نہیں یہی وجہ ہے کہ تجاوزات کی صورت میں بھی اس شہر کا حلیہ بگاڑ دیا گیا ہے۔ قندہاری بازار کے تھڑوں پردکانداروں کا دن بھر قبضہ رہتا ہے ایسے میں پیدل چلنا محال ہے۔

وزیراعلیٰ جام کمال سے درخواست ہے کہ وہ شہر میں فٹ پاتوں کے سائز میں دونوں جانب کمی کرکے سڑکوں کو چوڑا بنوائیں،یوٹرن کی شدید ضرورت ہے وہ بنوائیں ان سڑکوں کے قرب و جوار میں سرکاری عمارات کی کٹنگ کرکے ان سڑکوں کو ”بائی پاس“ کی سہولت دینے سے چوراہوں پر ٹریفک کے دباؤ میں شدید کمی آئے گی کیونکہ ”سڑکوں کی بائی پاس“ نہ ہونے سے ٹریفک کا دباؤ سب چوراہوں پر پڑتا ہے جہاں پر گاڑی مالک اپنی گاڑی کو آگے بڑھانے کی کوشش میں ٹریفک کو جام کرنے کا سبب بنتا ہے، اگر ٹریفک پولیس کی تعداد کو دیکھا جائے۔

تو کوئٹہ ٹریفک پولیس کے اہلکاروں کی تعداد دیگر صوبوں کی نسبت کافی زیادہ ہے، ایس پی ٹریفک نذیر احمد کرد بھی انتہائی متحرک آفیسر کے طورپر ٹریفک کی صورت حال کی بہتری کے لئے کوشاں رہتے ہیں لیکن شہر کی تنگ سڑکیں ان کی کوششوں کے آگے حائل ہوتی ہیں۔ بے نظیر پل کو بھی ڈبل کرنے کی ضرورت ہے جس پر چوراہا دے کر انجیئرنگ کا جنازہ نکالاگیا ہے یہ واحد پل جس پر چوراہا موجود ہے جہاں آج کل ٹریفک کا سلسلہ دن میں کئی بار رک جاتا ہے بلکہ سکولوں کی چھٹی کے اوقات کار میں تو تقریباً جام رہتاہے۔

وائٹ روڈ چمن پھاٹک کی صورت حال بھی پشین سٹاپ اولڈ سے کم تر نہیں یہاں پر دفاتر اور پرائیویٹ ہسپتالوں کی ٹریفک نے صورت حال کو بگاڑ رکھا ہے۔ توقع ہے کہ وزیراعلیٰ ان گزارشات پر مستقبل میں مزید بہتری لانے کی اپنی کوششیں جاری رکھیں گے۔