|

وقتِ اشاعت :   September 21 – 2020

وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان سے وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی وترقیات اسد عمر نے بلوچستان ہاؤس میں ملاقات کی،اس موقع پر وفاقی وزیر برائے دفاعی پیداوار زبیدہ جلال، سینیٹر انوارالحق کاکڑ اور رکن قومی اسمبلی نوابزادہ خالد خان مگسی بھی موجود تھے، ملاقات میں بلوچستان کے لئے وفاقی منصوبوں پرعملدرآمد اور ان کی پیشرفت کے علاوہ جنوبی بلوچستان اور ملحقہ اضلاع کے لئے خصوصی ترقیاتی پیکج سمیت صوبے کے دیگر ترقیاتی امور پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔

وزیراعلیٰ نے بلوچستان کی ترقی کے لئے وزیراعظم اور وفاقی وزیر منصوبہ بندی کی خصوصی دلچسپی اور عملی اقدامات کو سراہتے ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت کا بلوچستان کی ترقی کے لئے مثبت رویہ اور عملی اقدامات ہمارے لئے باعث تقویت ہیں، انہوں نے کہا کہ جنوبی بلوچستان کے لئے ترقیاتی پیکج اور پاک ایران اور پاک افغان سرحدی علاقوں کی ترقی کے منصوبے اور بارڈر مارکیٹوں کے قیام سے ترقی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوگا جس کا فائدہ بلوچستان کے ساتھ ساتھ پورے ملک کو پہنچے گا۔ وفاقی وزیر نے کہاکہ وفاقی حکومت ملک کی معاشی واقتصادی ترقی کے لئے بلوچستان کی اہمیت سے بخوبی آگاہ ہے۔

جبکہ ہمیں بلوچستان کی پسماندگی کا بھی احساس ہے یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم بلوچستان کی ترقی کو خصوصی اہمیت دیتے ہوئے صوبے کی پسماندگی کے خاتمے کے لئے اقدامات یقینی بنارہے ہیں اور جنوبی بلوچستان کی ترقی کے لئے خصوصی پیکج اس سمت میں ایک اہم پیشرفت ہے جس سے مکران، قلات اور رخشان ڈویژن کے پسماندہ علاقوں کی ترقی ممکن ہوسکے گی۔ ملاقات کے دوران وفاقی پی ایس ڈی پی میں شامل بیلہ، جھل جھاؤروڈ کے منصوبے کی ایکنک سے منظوری، نولنگ ڈیم کے پی سی ون میں ترمیم کی منظوری، بلوچستان کے وفاقی منصوبوں کے لئے فنڈز کے تیز رفتا راجراء، کراچی کوئٹہ چمن دورویہ شاہراہ کی فزیبیلیٹی رپورٹ کی تیاری، بلوچستان میں فائبر آپٹک کی توسیع، پاک افغان اور پاک ایران سرحد پر بارڈر ٹریڈ کی سہولتوں کی فراہمی جیسے اہم منصوبوں پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔

وفاقی وزیر نے وزیراعلیٰ کے موقف سے اتفاق کرتے ہوئے اس ضمن میں مکمل اور بھرپور تعاون کی یقین دہانی کرائی۔بلوچستان کی طویل سرحدی پٹی جو کہ ایران سے بھی ملتی ہے اس جانب شاید ہی کبھی کوئی توجہ دی گئی ہو کہ یہاں پر ٹریڈپوائنٹ بنائے جاسکیں خاص کر پنجگور، مند، واشک یہ وہ پسماندہ علاقے ہیں کہ یہاں کے لوگوں کے روزگار کا سارا دارومدار سرحدی علاقوں میں چھوٹی تجارت سے وابستہ ہے مگر اسے باقاعدہ تجارت اور آمدورفت کیلئے ٹریڈ ٹرمینل کے طور پر تعمیر کیاجائے تو یقینا اس سے بلوچستان کے ان پسماندہ علاقوں کو برائے راست فائدہ پہنچے گا۔

نیز یہ کہ یہاں کے لوگوں کی اکثریت کی رشتہ داریاں بھی ایران میں ہیں لہذا انہیں وہاں جانے کیلئے سہولیات فراہم کی جائیں تو غیر قانونی آمدو رفت سمیت دیگر غیر قانونی کاروبار کی حوصلہ شکنی ہوگی۔جس طرح پاک افغان سرحدی علاقوں میں تجارتی پوائنٹ قائم کئے جارہے ہیں اسی طرح ان سرحدی علاقوں کو بھی ترجیحات میں رکھنا ضروری ہے تاکہ یہاں پر سڑکوں کی تعمیر، مواصلات کا نظام، صنعتوں کا قیام، بجلی گھروں سمیت دیگر اہم منصوبوں سے بلوچستان حکومت کومحاصل مل سکے بدقسمتی یہ ہے کہ مستقل اور دیرپا منصوبہ بندی نہ ہونے کی وجہ سے بلوچستان پسماندگی کا شکار ہے اگر تھوڑی سی توجہ دی جائے تو یقینا یہ ایک بڑامعاشی انقلاب بلوچستان کیلئے ثابت ہوگا۔ امید ہے کہ وزیراعلیٰ بلوچستان اور صوبے کے وفاقی وزراء وسینیٹر ز اس میں کلیدی کردار ادا کرینگے تاکہ بلوچستان میں کسی حد تک ان علاقوں کی پسماندگی دور ہونے کے امکانات پیدا ہوسکیں۔