|

وقتِ اشاعت :   September 25 – 2020

حکومت اور اپوزیشن کے درمیان قومی احتساب بیوروکے دوسرے ترمیمی قانون 2019 پر معاملات طے پاگئے۔مجوزہ بل میں سیاست دانوں اور سرکاری افسران کے خلاف نیب کے اختیارات میں کمی کی تجویز دی گئی ہے۔مجوزہ بل کے مطابق نیب سیاستدانوں، سرکاری افسران کیخلاف اختیارات کے ناجائز استعمال کے مقدمات نہیں بناسکے گا۔اطلاعات کے مطابق حکومت نے نیب دوسرا ترمیمی آرڈیننس اپوزیشن کے تعاون سے قانون کی صورت میں لانے کافیصلہ کیا ہے۔ مجوزہ بل کے مطابق نیب سیاستدانوں، سرکاری افسران سے محصولات کے معاملات کی تحقیقات بھی نہیں کرسکے گا۔

مجوزہ بل کے مطابق نیب کا دائرہ کار وفاقی و صوبائی ٹیکس، لیویز، محصولات کے معاملات پر نہیں ہوگا، محصولات پر زیر التواء انکوائریاں، تفتیش متعلقہ اداروں اور حکام کو منتقل ہوجائیں گی۔مجوزہ بل کے تحت احتساب عدالتوں سے متعلقہ مقدمات فوجداری عدالتوں کو منتقل ہوجائیں گے، کسی حکومتی منصوبے یا اسکیم میں ضابطہ کار کی خامیوں پر سیاستدان یا سرکاری افسر کے خلاف کارروائی نہیں ہوگی۔بل کے تحت سیاست دان یا سرکاری افسر کیخلاف حکومتی منصوبے یا اسکیم سے مالیاتی فائدہ حاصل کرنے پر ہی کارروائی ہو سکے گی۔

واضح رہے کہ نیب دوسرا ترمیمی آرڈیننس دسمبر 2019میں جاری کیاگیاتھا اور مدت پوری ہونے پر اپریل 2020میں ختم ہوگیا ہے۔اس سے قبل حکومت اور اپوزیشن کے درمیان جولائی کے ماہ میں نیب قانون میں ترامیمی مسودہ پر اختلافات پیدا ہونے کی وجہ سے معاملہ ڈیڈلاک کا شکار ہوگیا تھاجس کی وجہ نیب قوانین میں اپوزیشن کی تجاویزکو حکومت نے مسترد کیا تھا۔اپوزیشن کی مجوزہ ترمیم میں چیئرمین نیب کی مدت ملازمت 3 سال اور ناقابل توسیع شامل تھی جبکہ چیئرمین نیب کو ملزم کی گرفتاری کا اختیار بھی نہیں ہوگا۔مجوزہ ترمیم میں کہا گیا تھاکہ نیب قانون کے تحت عوامی عہد یدار کی نااہلی 10 کی بجائے 5 سال کی جائے۔

جرم ثابت ہونے پر اس کی نا اہلی 10 کی بجائے 5 سال کے لیے ہوگی جبکہ عوامی عہدیدار سزا کے بعد اپیل کے فیصلے تک عہدے پر برقرار رہے گا۔اپوزیشن کی ترمیم میں ذرائع آمدن سے مطابقت نہ رکھنے کی شق ختم کرنے کی تجویز بھی شامل تھی جس کے مطابق ایک ارب روپے سے کم کرپشن پر نیب قانون کا اطلاق نہیں ہوگا۔اپوزیشن کی تجویز تھی کہ ٹیکس ڈیوٹیوں اور محصولات کے معاملات نیب کے دائرہ کار میں نہیں آئیں گے، نان فائلرشوہر یا بیوی اور 18 سال سے کم عمر بچے زیر کفالت تصور ہوں گے۔اپوزیشن کی ترمیم کے مطابق پلی بارگین کرنے پر بھی نا اہلی 5 سال ہوگی جبکہ نیب کسی گمنام شکایت پرکارروائی نہیں کرے گا۔

اور نیب کسی اشتہاری کے خلاف غیر موجودگی میں کارروائی نہیں کرے گا۔اپوزیشن کی تجویز میں کہا گیا تھاہے کہ آمدن سے زائد اثاثہ جات کے الفاظ کو حذف کیا جائے اور اثاثے کی مالیت کا تعین اس کی خریداری کے وقت سے ہوگا جبکہ نیب انکوائری کو 6 ماہ میں مکمل کرے گا اور عدالت 30 دن کی بجائے 6 ماہ میں فیصلہ کرے گی۔بہرحال اب حکومت واپوزیشن کے درمیان معاملات طے پاگئے ہیں مگرسب سے بڑا سوال یہ ہے کہ جب نیب کی بنیاد رکھی گئی تھی تو اس دوران تمام تر پہلوؤں کا جائزہ کیونکر نہیں لیا گیا تھا کہ نیب کا دائرہ کار کس حد تک محدود رکھاجائے۔

اور کہاں تک کارروائی کی اجازت دی جائے۔یہ سیاسی جماعتوں کو ہی حل کرنا تھا اور سب سے اہم فورم اس کیلئے پارلیمنٹ ہی ہے، بدقسمتی یہی رہی ہے کہ بارہا قومی اداروں کو ہمیشہ حکومتوں نے اپنے مفادات کی خاطر سیاست میں گھسیٹا اور اپنے طے شدہ مفادات ان سے حاصل کئے جب وہ اقتدار سے باہر رہے تو ان کو اپنا ہی دہرایا ہوا عمل انتقامی کارروائی لگی۔ دنیا میں جمہوریت کو اس لئے اہمیت حاصل ہے کہ وہ قانون کے مطابق پورے نظام کو چلاتی ہے کسی فرد واحد یا گروہ کسی بھی ادارے کو اپنے مفادات کیلئے استعمال میں نہیں لاتی،اس لئے وہاں پر قانون کی بالادستی قائم ہے۔

آج جو شکوے اور گلے اپوزیشن کی جانب سے سامنے آرہے ہیں یہ ماضی انہی کا ہی کارنامہ ہے مگر اب بھی قانون اور پارلیمنٹ کی بالادستی کو یقینی بنانے کیلئے اپوزیشن اور موجودہ حکومت سنجیدگی سے پارلیمان کے اندر اپنا کردار ادا کریں جوبھی قانون سازی ملکی مفادات کا تحفظ کرتی ہے وہ بل پارلیمان میں پیش کریں جس سے عوام کو یہ باور ہوسکے کہ ملک اورعوام کے وسیع تر مفاد میں پارلیمان میں بیٹھے ان کے منتخب نمائندگان اپنا کردار ادا کررہے ہیں۔ نیب کے معاملہ پر جتنا شوروشرابہ کیاجارہا ہے اب ایک نظر ملک میں حالیہ خواتین اوربچیوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کی جانب بھی سیاسی جماعتیں نظر دوڑائیں کہ کس طرح سے اس بھیانک عمل کو روکا جاسکتا ہے۔

اور اس کیلئے مؤثر قانون سازی کرتے ہوئے اس کی سزا کا بھی تعین کیاجائے، یہاں وہاں سے جذباتی باتیں پارلیمان کے اندر کھڑے ہوکر نہ کریں جو تھالیوں کی گونج کی حد تک محدود رہ سکیں اور باہر زیادتیوں کے خلاف عوام چیخ وپکار کرنے کیلئے سڑکوں پر مجبور ہوکر نکل آئیں کیونکہ اس وقت صورتحال انتہائی نازک ہے شاید ہی کوئی ایسا دن گزرتا ہو کہ زیادتی کے کیسز رپورٹ نہ ہوں۔ آج خواتین خود کو غیر محفوظ تصور کررہی ہیں جبکہ والدین اپنی بچیوں کو باہر بھیجنے سے کترارہے ہیں، ایک ایسا ماحول بن چکا ہے جو ہمارے نظام پر سوالیہ نشان بنتا جارہا ہے اس لئے اس خوف اور ہُو کے عالم کو ختم کرتے ہوئے سیاستدان اس پر خصوصی توجہ دیں۔

اور موجودہ حکومت زیادتیوں کے تدارک کیلئے تمام تر سرکاری مشینری کو حرکت میں لائے جو بھی اس بھیانک جرم میں ملوث ہو ں ان کو قانون کی گرفت میں لایاجائے اور اس طرح کے گروہوں کا کھوج لگائیں جو بھیڑیوں کی طرح گھوم رہے ہیں اور خواتین وبچی بچوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بنارہے ہیں۔ ان کے خلاف کریک ڈاؤن کیاجائے اور ان کا قلع قمع کیاجائے جو خواتین وبچیوں کی عصمت دری کررہے ہیں، مہذب معاشرہ اس وقت بنتا ہے جہاں پر ہر جنس خود کو محفوظ سمجھے۔ لہذا یہ ایک بڑا چیلنج آج ریاست کے سامنے موجود ہے جس سے نمٹنا انتہائی ضروری ہے۔ امید ہے کہ حکومت واپوزیشن جہاں نیب قوانین سمیت دیگر معاملات پر قانون سازی سنجیدگی کے ساتھ کررہے ہیں اسی طرح عوامی تحفظ کیلئے بھی اپنا کردار ادا کریں گے۔