|

وقتِ اشاعت :   October 7 – 2020

کوئٹہ: بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کا پانچواں مرکزی اجلاس زیر صدارت مرکزی چیئرمین ڈاکٹر نواب بلوچ منعقد ہوا جس میں سابقہ رپورٹ, تنقیدی نشست, عالمی و علاقائی سیاسی صورتحال, تنظیمی امور اور آئندہ لائحہ عمل کے ایجنڈے پر سیر حاصل بحث کے بعد چند اہم تنظیمی فیصلے لیے گئے۔اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین ڈاکٹر نواب بلوچ نے طلباء سیاست کی اہمیت پر طائرانہ نظر ڈالتے ہوئے کہا کہ طلباء سیاست ہر طلباء کا آئینی حق کے ساتھ معروض کی نمایاں ضرورت ہے۔ طلباء سیاست ہی وہ واحد عمل ہے جس سے طالبعلم اپنے حقوق سے آشنا ہو کر اور عملی جدوجہد کے راستے کو بروئے کار لاتے ہوئے۔

جمہوری حقوق حاصل کرسکتے ہیں. کیونکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ طالبعلم کسی قوم کے عروج و زوال میں اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں اور ایسے معاشرے جہاں طالبعلم سیاسی جمود کا شکار ہوں تنزلی اْن کا مقدر بن جاتا ہے۔انھوں نے بلوچستان کے موجودہ تعلیمی زبوں حالی اور انتظامیہ کی بے حسی کو زیر بحث لاتے ہوئے کہا کہ آج بلوچستان میں تعلیمی صورتحال نہایت ہی ابتری کا شکار ہے اور ایک منظم منصوبے کے تحت بلوچستان میں تعلیمی سرگرمیوں کو متاثر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے. مختلف نفسیاتی ہتکھنڈوں کو اپناتے ہوئے تعلیمی اداروں میں علمی سرگرمیوں کو منجمند کیا جارہا ہے۔

جس کی واضح مثال حالیہ رونما ہونے والے واقعات ہیں۔ جامعہ بلوچستان میں خفیہ کیمروں کے ذریعے طالبعلموں کو ہراساں کرنے اور احتجاجی ریلی نکالنے پر طالبعلموں پر لاٹھی چارج کرکے سلاخوں کے نظر کرنے کیساتھ طالبعلموں کی جبری گمشدگی جیسے واقعات طالبعلموں میں خوف و ہراس پھیلا کر انھیں علمی و سیاسی جدو جہد سے دور کرنے کے مترادف ہے۔ اس کے علاوہ صوبے کے واحد میڈیکل یونیورسٹی میں متعصب وائس چانسلر کی تعیناتی اور تعلیم دشمن پالیسیوں پر عملدر آمد کر کے سینکڑوں کی تعداد میں طالبعلموں کی حق تلفی کرنے کی کوشش کی گئی۔

جس کے خلاف طالبعلموں نے مشترکہ طور پر جدوجہد کر کے تعلیم دشمن پالیسیوں کو ناکام بنایا. پنجاب کے جامعات میں بلوچستان کے طلبا کیلیے مختص نشستوں میں تسلسل کیساتھ کمی اور سکالرشپس کا خاتمہ اِن تعلیم دشمن پالیسیوں کی کڑی ہے۔اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مرکزی جنرل سیکرٹری سلمان بلوچ نے بلوچ طلباء سیاست میں جدت پرکہا کہ بلوچ طلباء سیاست میں جدت معروضی حالات کا تقاضا ہے. جہاں ایک طرف تعلیمی اداروں میں انتظامیہ کی جانب سے متعصبانہ تعلیمی پالیسیاں تسلسل کیساتھ جاری ہیں تو دوسری جانب بلوچ طلباء بھی ان جابرانہ پالیسوں کا ڈٹ کر مقابلہ کر رہے ہیں۔

اور آئے روز نِت نئے مشکلات و مصائب کا سامنا کرنے کے باوجود علم و شعور سے رخ نہیں موڑنا بلوچ نوجوانوں کی علمی حوالے سے مستقل مزاجی کی دلیل ہے۔ آج بلوچ قوم ایک تاریخی دور سے گزر رہا ہے اور طالبعلموں کا اس تاریخی دور میں کردار نہایت ہی اہمیت کا حامل ہے۔ علم و زانت سے آشنائی کیلیے بلوچ نوجوان کبھی بولان میڈیکل کالج کی نجکاری کیخلاف سیسہ پلائی دیوار بنے رہے تو کبھی سکالرشپس کی بحالی کیلیے ملتان کے سڑکوں کو اپنا مسکن بنایا. بلوچ نوجوانوں کا یہ جدوجہد بلوچ قوم کیلیے ایک روشن مستقبل کا ضامن ہے۔

اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مرکزی وائس چیئرپرسن ڈاکٹر صبیحہ بلوچ کا کہنا تھا کہ بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کی ہمیشہ یہ کاوش رہی ہے کہ وہ بلوچ طلباء مسائل کی حل کی تکمیل کے لئے صف اول کا کردار ادا کرے اور طلباء مسائل کے حل کیلئے جہد تسلسل کا راستہ اپناتے ہوئے طالبعلموں کو ایک تعلیم دوست ماحول مہیا کرے کسی بھی طلبا تنظیم کی اولین ترجیح اراکین کی سیاسی, سماجی اور شعوری تربیت ہے جس کیلیے تنظیم کی جانب سے ایک واضح پروگرام کے تحت عمل پیرا ہو کر تربیتی سرگرمیوں کا انعقاد کیا گیا. جدید عہد علمی و ادبی جدوجہد کا تقاضا کرتی ہے۔

کیونکہ علم دشمن عناصر آئے روز نت نئے حربوں کے تحت مختلف پالیسیوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلیے جدوجہد کر رہے ہیں.ان حالات میں تنظیم کی یہ کوشش ہونی چاہیے کہ وہ اپنے کارکنوں کی اس قدر سیاسی تربیت کرے کہ راستے میں حائل تمام مصائب کا ڈٹ کر سامنا کر سکیں۔

کتب بینی ہی وہ واحد عمل ہے جو کسی بھی نوجوان کو علمی اور فکری حوالے سے پختہ کرکے جہدوجہد میں ایک کردار بناتا ہے۔اسی اثنا میں تنظیم کی جانب سے کتاب کلچر کے فروغ کیلیے مختلف اضلاع میں بْک سٹال کا اہتمام کیا گیا اور اس حوالے سے سیمینارز منعقد کی گئیں۔