|

وقتِ اشاعت :   October 11 – 2020

پی ڈی ایم نے اپنے احتجاجی تحریک کے حوالے سے نیا شیڈول جاری کردیا ہے،سب سے پہلے اپوزیشن جماعتوں پر مشتمل اتحاد ملک بھر میں جلسے منعقد کرے گی گویا یہ اپوزیشن کیلئے ایک ٹیسٹ کیس ہوگا کہ عوام کی کتنی بڑی تعداد ان جلسوں میں شرکت کرتی ہے اور اپوزیشن کے بیانیہ کی کس حد تک حمایت کرتی ہے۔مگر اس دوران حکومت بھی اپوزیشن سے نمٹنے کیلئے حکمت عملی پر غور کررہی ہے جس طرح گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان نے واضح طور پر کہہ دیا کہ اگر قانون کو ہاتھ میں لیاگیا تو گرفتاریاں ضرور ہونگی، سب کو جیل میں ڈال دیا جائے گا۔

کیا اس سے اپوزیشن کی تحریک پر اثر پڑے گا کیونکہ ایک یا دو جماعت اور شخصیت سے نکل کر اب پی ڈی ایم نے اسے پوری تحریک میں تبدیل کر دیا ہے اور جس طرح سے اپوزیشن ڈٹ کر حکومت کیخلاف کھڑی ہوئی ہے اس سے بظاہر تو یہی لگتا ہے کہ اب معاملہ نوازشریف یا زرداری پر دباؤ سے بھی نہیں رک والاچونکہ ان کی سکینڈلیڈر شپ بھی تیار دکھائی دے رہی ہے اور اس وقت میدان میں مولانافضل الرحمان کی قیادت میں تمام جماعتیں متفق دکھائی دے رہی ہیں،بلاول بھٹو زرداری اور مریم نواز فی الوقت فیصلوں کی تائید کررہے ہیں اور مشترکہ طور پر تحریک کو آگے بڑھانے کی بات کررہے ہیں۔

جبکہ مسلم لیگ ن نے باقاعدہ اپنے رہنماؤں کو تاکید کی ہے کہ پارٹی قیادت کی مرضی کے بغیر وہ کسی سے بھی کوئی ملاقات نہیں کرینگے، جب پارٹی قیادت کا اجازت نامہ ملے گا تب ہی وہ کسی سے ملاقات کرینگے۔ یہ فیصلہ یقینا اسی تناظر میں کیا گیا ہے کہ گزشتہ دنوں عسکری قیادت سے ن لیگ اور پیپلزپارٹی سمیت اپوزیشن جماعتوں کے مرکزی رہنماؤں نے ملاقات کی تھی اور اسے اپوزیشن نے عوام کے سامنے نہیں لایا تھا، پھرجب شیخ رشید نے ملاقات کا احوال میڈیا کے سامنے آکر دیا تو اس دوران اپوزیشن کی پوزیشن دفاعی لگ رہی تھی۔ بہرحال یہ کہنا کہ آگے چل کر ملاقاتیں نہیں ہونگی۔

یا میٹنگز کا اہتمام نہیں کیاجائے گا ایسا بالکل نہیں ہے کیونکہ حکومت بھی اپوزیشن کو بات چیت کے ذریعے کسی نہ کسی طرح اپنے ساتھ مصروف رکھنا چاہے گی مگر یہ دونوں فریقین کے درمیان ہونے والی گفت وشنید اورایجنڈوں پر منحصر ہے۔ مگر ایک بات واضح ہے کہ دسمبر تک اپوزیشن کی پوری کوشش ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح سے اپنے اہداف حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے، اپوزیشن کیلئے اصل امتحان گلگت بلتستان کے انتخابات ہیں جہاں پر پیپلز پارٹی اور ن لیگ دونوں کی پوزیشن مضبوط ہے،کیا اس میں دونوں جماعتیں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے فارمولے کی طرف جائینگے اور ایک اتحاد کے طور پر قومی وصوبائی اسمبلیوں کی نشستوں پر ایک دوسرے کی اکثریت کا احترام کرتے ہوئے اپنے امیدواروں کو ایک دوسرے کے حق میں دستبردار کرنے کے حوالے سے متفق ہونگے۔

اگر دونوں جماعتوں نے اس پر اتفاق کیا اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی طرف گئے تو یقینا یہ کہا جاسکتا ہے کہ اپوزیشن آگے چل کر مستقل مزاجی کے ساتھ اپنی تحریک چلائے گی کیونکہ نومبر میں گلگت بلتستان میں انتخابات ہونے جارہے ہیں جبکہ اپوزیشن دسمبر تک اپنے اہم اہداف حاصل کرنے کیلئے کوشاں دکھائی دے رہی ہے، اگر ہم آہنگی نہ ہوئی تو اس میں کوئی دورائے نہیں کہ اپوزیشن کی جماعتوں کے درمیان اختلافات پیدا ہوں گے کیونکہ گلگت بلتستان میں پی ٹی آئی کی بھی کسی حد تک مقبولیت ہے،اگرن لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیان مقابلہ کا معاملہ ہوا تو پی ٹی آئی اس میں نہ صرف نشستوں پر کامیابی حاصل کرے گی بلکہ سیاسی حوالے سے بھی اپوزیشن پر برتری حاصل کرلے گی جس کا براہ راست اثر اپوزیشن کی تحریک پر پڑے گا۔