|

وقتِ اشاعت :   October 23 – 2020

چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد نے ایک کیس کی سماعت میں ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ حکمرانوں نے سرکاری پیسے کو ذاتی سمجھ کر بانٹا، پاکستان کی حکومت کے مالی حالات اسی وجہ سے خراب ہیں۔سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں بینظیر اسٹاک ایمپلائز اسکیم کے تحت ملازمین کو شیئرز دینے سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔دورانِ سماعت ایڈیشنل اٹارنی جنرل سہیل محمود نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سال 2009 میں حکومت نے سرکاری کمپنیز کے 12 فیصد شیئرز ملازمین کو دینے کا فیصلہ کیا، سال 2013 میں حکومت بدلی تو ملازمین کو منافع کی ادائیگی روک دی گئی۔

اور موجودہ حکومت نے اسکیم کو ختم کرنے کا حکم جاری کیا جبکہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے 2013 سے 2019 تک کی ادائیگی کرنے کا حکم دیا۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل کے دلائل پر چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے کہ پاکستان کی حکومت کے مالی حالات اسی وجہ سے خراب ہیں، حکمرانوں نے سرکاری پیسے کو ذاتی سمجھ کر بانٹا۔جسٹس گلزار نے کہا کہ یہ پیسے الیکشن اسٹنٹ کی غرض سے بانٹے گئے ہیں، حکومتی پیسہ سارا سرکار کا ہوتا ہے حکمرانوں کا ذاتی نہیں، یہ بھی ہوا کہ 15 سال کی تنخواہیں اور مراعات بھی دی گئیں، حکومت کا پیسہ پھینکنے کے لیے نہیں ہوتا۔

دوسری جانب سپریم کورٹ نے کرپشن مقدمات کی روزانہ کی بنیاد پر سماعت کا حکم دیا۔سپریم کورٹ پاکستان نے 120 نئی احتساب عدالتوں کے قیام سے متعلق کیس کی کل کی سماعت کا تحریری حکمنامہ جاری کر دیا۔عدالت نے ریمارکس دیئے کہ شواہد ریکارڈ کرنے کے عمل کو تیز کر کے جلد مکمل کیا جائے۔ سپریم کورٹ نے احتساب عدالتوں کو جلد از جلد مقدمات کے فیصلے کرنے کی ہدایت بھی کر دی۔سپریم کورٹ نے احتساب عدالتوں کو مقدمات میں التواء نہ دینے کی بھی ہدایت کرتے ہوئے چیئرمین نیب کو عدالتی احکامات پر عملدرآمد یقینی بنانے کا حکم دیا۔

چیف جسٹس آف پاکستان کے ریمارکس ہمارے سترسالہ حکمرانی کو واضح کرتے ہیں کہ کس طرح سے افسر شاہی کے ذریعے ملکی خزانہ کو بے دردی سے لوٹتے ہوئے سیاستدانوں نے جائیدادیں بنائیں اور اپنے منظور نظرافراد کو نوازتے ہوئے قومی خزانہ پر بوجھ ڈالا۔ کرپشن کی جڑیں اس قدر مضبوط ہوتی گئیں کہ ہر نئی حکومت نے کرپشن کے ریکارڈ توڑ دیئے اور اس کے اثرات براہ راست ملکی نظام پر پڑا،اور اب اس کو ٹھیک کرنا اتنا آسان نہیں۔ جب تک سزا کے عمل کو شفاف طریقے سے آگے نہیں بڑھایاجائے گا جس میں حکومت یا اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے جتنے بھی سیاسی شخصیات یا دیگر بااثرافراد کرپشن میں ملوث ہیں۔

ان کے خلاف تحقیقات کرتے ہوئے سزائیں دی جائیں اور اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ آنے والے وقت میں کرپشن نہیں ہوگی کیونکہ کرپشن کے خاتمے کے بغیر ملک کسی صورت ترقی نہیں کرسکتا اور عام لوگوں کے مسائل حل نہیں ہونگے۔آج ملک میں جس طرح کا معاشی بحران ہے اس کی وجہ کرپشن ہی ہے بعض سیاستدانوں نے سیاست کو تجارت کے طور پر لے رکھا ہے، انتخابات کے دوران خطیر رقم خرچ کرتے ہوئے مہم چلائی جاتی ہے اور جب ان کی حکومت بن جاتی ہے تو پورا پیسہ سود سمیت وصول کیا جاتا ہے۔

اس کلچر کے خاتمے کیلئے عدلیہ کا کردار انتہائی اہم ہوگا جبکہ نیب کو بھی پھرتی کے ساتھ بلاتفریق کارروائی کرنی چاہئے تاکہ یہ تاثر زائل ہوسکے کہ نیب صرف اپوزیشن پر ہاتھ ڈال رہی ہے کیونکہ اس سے قبل بھی اداروں کو سیاسی انتقام کیلئے استعمال کیا گیا لہٰذا ان تمام پہلوؤں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کرپشن کے خاتمے کیلئے شفاف انداز میں کارروائی کی ضرورت ہے۔