|

وقتِ اشاعت :   November 9 – 2020

دوحہ میں ہونے والے ملابرادران اور امریکہ کے درمیان جنگ بندی معاہدے کے باوجود افغانستان میں امن وامان کی صورتحال میں بہتری نہیں آرہی۔ گزشتہ چند دنوں میں مزید دہشت گردی کے واقعات رونما ہوچکے ہیں جس سے متعدد قیمتی جانیں ضائع ہوچکی ہیں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان حملوں کی ذمہ داری کسی بھی گروپ نے قبول نہیں کی ہے مگر افغان حکومت نے ایک حملہ میں حقانی نیٹ ورک کا نام لیا ہے مگر ان کی جانب سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔ گزشتہ روز افغانستان کے دارالحکومت کابل میں دھماکے میں افغان صحافی سمیت 3 افراد جاں بحق ہوگئے۔

غیر ملکی میڈیا کے مطابق پولیس حکام کا دعویٰ ہے کہ دھماکا خیز مواد افغان صحافی یماسیاوش کی گاڑی میں نصب کیاگیا تھا اور جب وہ اپنے گھرکے قریب پہنچے تو زوردار دھماکا ہوا جس کے نتیجے میں افغان صحافی کے ساتھ گاڑی میں سوار دیگر 2 افراد بھی جاں بحق ہوگئے۔ یماسیاوش کے قتل کی ذمہ داری کسی گروپ نے قبول نہیں کی ہے تاہم افغان وزارت داخلہ نے بم دھماکے کا الزام طالبان کے حقانی نیٹ ورک پر عائد کیا ہے۔کابل میں امریکی سفارت خانے نے افغان صحافی کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے اسے اظہار رائے کی آزادی پر حملہ قرار دیا ہے۔

واضح رہے کہ یما سیاوش افغانستان کے معروف نجی ٹی وی چینل طلوع کے سابق اینکر تھے اور سیاسی امور اور حالات حاضرہ پر ان کی اچھی گرفت تھی تاہم حال ہی میں انہوں نے ٹی وی پروگرام کی میزبانی چھوڑ کر افغانستان کے مرکزی بینک میں مشیر برائے عوامی تعلقات عامہ کی حیثیت سے ذمہ داریاں سنبھال لی تھیں۔دوسری جانب گزشتہ ماہ کے آخر میں افغانستان کے دارالحکومت کابل میں ہونے والے دو بم دھماکوں میں 22 افراد جاں بحق جبکہ متعددافراد زخمی ہوگئے تھے۔پہلا بم حملہ کابل کے مشرقی علاقے میں سڑک کنارے نصب بم کے ذریعے کیا گیا۔

جس کی زد میں ایک بس آئی،بم دھماکے میں تین خواتین سمیت 9 افرادجاں بحق جبکہ متعدد افرادزخمی ہوئے۔غزنی کے پولیس ترجمان نے حملے کا ذمہ دار طالبان کو ٹھہراتے ہوئے کہا کہ بم دھماکے میں 4 پولیس اہلکار بھی زخمی ہوئے تاہم طالبان کی جانب سے اس حوالے سے تاحال کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔مذکورہ بم دھماکے کے چند گھنٹوں بعد کابل میں واقع ایک تعلیمی مرکز کے قریب خود کش دھماکا ہوا جس کے نتیجے میں 13 افراد جاں بحق اور 30 زخمی ہوگئے۔افغان وزارت داخلہ کے ترجمان کے مطابق خود کش حملہ آور سینٹر میں داخل ہونا چاہتا تھا لیکن گارڈ نے اسے پہچان لیا۔

جس کے بعد خود کش حملہ آور نے خود کو دھماکے سے اڑالیا۔تاحال کسی گروپ نے حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے جبکہ طالبان کا کہنا ہے کہ وہ اس حملے کے ذمہ دار نہیں۔افغانستان میں امن کے حوالے سے عالمی سطح پر تمام ممالک اپنا مؤقف دیتے ہیں مگر اس کے باوجود بھی متواتر حملے ہونا سوالیہ نشان ہے کہ چند گروپس کی سرپرستی آخر کون کررہا ہے جو امن عمل کو سبوتاژ کرنے کے درپے ہیں اور نہیں چاہتے کہ افغانستان کا مسئلہ بات چیت اور امن کے ذریعے خوش اسلوبی سے حل ہوجائے۔ پاکستان کی جانب سے عملی طور پر کردار سامنے نظرآرہا ہے۔

اور ایک واضح پالیسی بھی پاکستان نے اپنائی ہے کہ افغانستان میں کسی جنگ کا حصہ بننے کی بجائے ہم صرف مذاکرات کیلئے کردار ادا کرینگے تاکہ افغانستان جو عرصہ دراز سے بدامنی اور عدم استحکام کاشکار ہے اسے اب حل ہوجانا چاہئے تاکہ خطے میں نہ صرف امن بحال ہوسکے بلکہ اس کے ساتھ استحکام اورمعاشی حوالے سے بھی خطے میں تبدیلی رونما ہوسکے۔ بہرحال افغانستان میں امن کے قیام کی ذمہ داری خطے میں موجود ممالک سمیت عالمی برادری کی بھی بنتی ہے تاکہ یہ دیرینہ مسئلہ حل ہوسکے۔