|

وقتِ اشاعت :   December 24 – 2020

بلوچستان کی محرومیوں اور پسماندگی پر 70 سال سے زائد عرصہ سے آہ و فغاں جاری ہے مگر حکمرانوں کے دلوں میں رحم نام کی کوئی شہ نظر نہیں آتی بلکہ مزید اس صوبہ کو غربت کی طرف دھکیلا جارہا ہے۔ بلوچستان کا مسئلہ آج پورے ملک پر واضح ہے کہ یہاںکے مسائل کیا ہیں اور قوم پرستوں کے شکوئوں کے بنیادی اسباب کیا ہیں ؟اب یہ کہنا کہ بلوچستان کا مسئلہ کس طرح حل ہوگا اور اس کیلئے کیا روڈ میپ اور میکنزم اپنائی جائے کہ بلوچستان کے عوام کی ناراضگی وفاق کے ساتھ ختم ہوجائے ۔وہ تمام تر بنیادی وجوہات ستر سال کے دوران حکمرانی کرنے والی ہر وفاقی جماعت کے سامنے تفصیلی طور پر رکھی گئیں۔

مگر انہیں حل کرنے کی بجائے طاقت کے استعمال کو ترجیح دی گئی اور نتائج سب کے سامنے ہیں کہ بلوچستان اور وفاق کے درمیان خلیج کم ہونے کی بجائے مزیدبڑھ گئی بلکہ اس میں شدت اس قدر آگئی کہ معاملات تشدد کی طرف چلے گئے لیکن یہ سب کچھ ہونے کے باوجود وفاق کے رویہ میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، محض مذاکرات، بات چیت اور نکات کے اس ڈھونگ کے بعد پھر وہی فارمولا اپنایا گیا جو نوآبادیاتی نظام کی طرز پر ایک کالونی کے ساتھ کیا جاتا ہے اور اس کے باوجود یہ امید کرنا کہ بلوچستان کی عوام خاموش ہوکر سب کچھ برداشت کرلے گی تو ایسا ممکن نہیں۔

دنیا کے بڑے ممالک نے نوآبادیاتی طرز حکمرانی سے یہی سبق سیکھا کہ کالونیل پالیسی کسی صورت کار آمد نہیں ہوسکتی ،ایک فیڈریشن کو تمام اکائیوں کو برابری کی بنیاد پر حقوق دینا لازمی ہے اس کے بغیر جمہوری آئینی حکمرانی کی باتیں دوغلے پن کے سوا کچھ نہیں۔ بلوچستان نے کتنی ترقی کی اور کس دور میں کس جماعت نے بلوچستان میں ترقی کے ریکارڈ توڑ کام کئے اس کا آئینہ کی طرح صاف اندازہ بلوچستان کا دورہ کرکے جائزہ بخوبی کیا جاسکتا ہے۔ بلوچستان کی ترقی میں رکاوٹ یہاں کے سیاستدانوں کو گرداننا سراسر زیادتی ہے۔

بلکہ ہمیشہ آئینی حقوق کا مطالبہ یہاں کی سیاسی قیادت نے کی، بجائے اس پر توجہ دی جاتی بلکہ انہیںدیوار سے لگاکر ترقی دشمن کا لیبل لگاکر من گھڑت الزامات کے ذریعے انہیں ملک دشمن تک قرار دیا گیامگر اس کے باوجود آج بھی بلوچستان کی قوم پرست جماعتیں ان تمام تر الزامات کو سہتے ہوئے اپنے آبائواجداد کے نقش قدم پر چل کر بلوچستان کے حقوق کیلئے آئینی طریقے سے جدوجہد کررہے ہیں۔ گوادر جو سی پیک کا بنیادی جز ہے اسی ضلع کو آج تک پانی ،بجلی کا مسئلہ درپیش ہے جبکہ سی پیک سے جڑے منصوبوں کے نشان تک وہاں دکھائی نہیں دیتے۔

لگتا ہے کہ گوادر ماسٹر پلان میں سب سے اہم تحفہ باڑ کا ہے جس پر اس تیز رفتاری کے ساتھ کام ہورہا ہے جیسے اس کے بننے کے بعد گوادر ترقی کی منزلیں طے کرتے ہوئے بلوچستان کیلئے بڑا گیم چینجر ثابت ہوگا۔ خدارا ان پالیسیوں کو اب ترک کردیں، بلوچستان ملک کا نصف حصہ ہونے کے باوجود قومی خزانے کو اپنے میگا منصوبوں سے جتنا ریونیو دے رہا ہے اس کے بدلے غلامانہ رویہ تو نہ اپنایا جائے کہ بلوچ ایک علاقے میں محبوس ہو کر غربت و افلاس کے ہاتھوں مرنے لگ جائیں۔ تبدیلی سرکار سے تو عوام کی امیدیں بھی دم توڑنے لگی ہیں۔

پھر بلوچستان ویسے بھی دیگر صوبوں کی نسبت کسی کھاتے میں نہیں آتا بس یہی صدا بلوچستان بھرسے بلند ہورہی ہے کہ انہیں کچھ دیا نہیں جارہا تو ان سے چھینا بھی نہ جائے۔ بہرحال مقتدر حلقے اس حوالے سے نظر ثانی کرتے ہوئے بلوچستان کے متعلق پالیسیوں کو تبدیل کریں۔ بلوچستان کے عوام کو پانی، بجلی، گیس، صحت، تعلیم، روزگار، سڑکیں چاہئیں تاکہ یہاں کے عوام آسودگی کے ساتھ زندگی بسر کرسکیں ۔یہی بنیادی مطالبہ اول روز سے ہے اور آج بھی یہی ہے۔