کوئٹہ: بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں بلوچستان کے زمینداروں کے ذمہ واجب الادا زرعی قرضوں کو معاف کروانے کا پیکج دینے سے متعلق قرار داد ایوان کی جانب سے مشترکہ طور پر منظور کرلی گئی ۔ پیر کو بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں نوابزادہ طارق خان مگسی ، میر جان محمد جمالی اور ملک نصیر احمد شاہوانی کی مشترکہ قرار داد ایوان میں پیش کرتے ہوئے میر جان محمد جمالی نے کہا کہ وزیراعظم نے خیبرپختونخوا کے زمینداروں کے ذمے واجب الادازرعی قرضے معاف کرنے کا پیکج متعارف کرایا ہے ۔
چونکہ صوبہ بلوچستان کے زمینداروں کے ذمہ بھی زرعے قرضے واجب الادا ہیں اور زمینداروں کو اکثر و بیشتر فصلات میں نقصانات کی وجہ ، بار ش کا کم ہونا ، زیر زمین پانی کی سطح کا گرنا ، بے وقت بجلی کی لوڈشیڈنگ اور نہر ی پانی وقت پر نہ ملنا ارسامعاہدے کی خلاف ورزی ہے لہٰذا صوبائی حکومت وفاقی حکومت سے رجوع کرے کہ وہ بلوچستان کے زمینداروں کے ذمہ واجب الادا زرعی قرضوں کو معاف کرانے کا پیکج متعارف کرانے کو یقینی بنائے تاکہ یہاں کے لوگوں میں پائی جانے والی بے چینی اور احساس محرومی کا خاتمہ ممکن ہوسکے ۔انہوںنے کہا وفاق میں خیبرپختونخوا کے بھی زمینداروں کے قرضے معاف کئے گئے ہیں بلوچستان کے اکثر لوگ زراعت اور گلہ بانی کرتے ہیں صوبے میں کیسکو کی وجہ سے انسانی پیدا کردہ بحران نے جنم لیا ہے جس کی اصل وجہ بے جا ٹیوب ویل ہیں ۔ قرار داد کی موزونیت پر بات کرتے ہوئے بی این پی کے پارلیمانی لیڈر ملک نصیر شاہوانی نے کہا کہ 1997ء سے لے کر 2001ء تک بلوچستان طویل خشک سالی کا شکار رہا ۔
جس کے بعد6ارب روپے کے زرعی قرضے معاف کئے گئے اتنے قرضے تو ملک میں ایک شخص کے نام بھی معاف ہوجاتے ہیں انہوںنے کہا کہ اب تک زمینداروں کو خشک سالی کی وجہ سے63ارب روپے سے زائد کے نقصانات ، ساڑھے7ہزار ٹیوب ویل خشک اور ہزاروں درخت کاٹے جاچکے ہیں مگر پھر بھی زمینداروں کے قرضے معاف نہیں کئے جارہے انہوںنے کہا کہ صوبے کو پانی اور بجلی دونوں کا مسئلہ درپیش ہے بلوچستان کو پانچ بار آفت زدہ قرار دیا جاچکا ہے لیکن متاثرین کی مدد نہیں کی جاتی انہوںنے مطالبہ کیا کہ زمینداروں کے قرضے معاف کئے جائیں ساتھ ہی ایک کمیٹی تشکیل دی جائے جو اس حوالے سے وفاق سے بات کرسکے ۔ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے رکن نصراللہ زیرئے نے کہا کہ 1991ء میں پانی کی تقسیم کا جو معاہدہ ہوا اس میں خیبرپختونخوا کو صرف8فیصد حصہ دیا گیا جبکہ پانی کا اصل ذریعہ وہی علاقہ ہے صوبے میں 40لاکھ پھلدار درخت کاٹے گئے ، لورالائی کے درختوں کی لکڑیاں دس لاکھ روپے تک میں فروخت ہوئیں ۔
موسیٰ خیل، ژوب ، شیرانی ، لورالائی ، واشک میں گلہ بانی ختم ہوگئی لوگوں کے باغات تباہ ہوگئے زرعی قرضے معاف نہیں بلکہ مکمل طو رپر ختم کئے جائیں عوامی نیشنل پارٹی کے پارلیمانی لیڈر اصغرخان اچکزئی نے کہا کہ بلوچستان وسائل سے مالا مال ہے یہاں سرحدیں ہیں کئی موسم ہیں جن کی وجہ سے مختلف اقسام کے پھل ، سبزیاں اگتی ہیں صوبے کی سرحدوں پر بھی توجہ دی جائے اور یہاں ایک سسٹم کے تحت دوستانہ ماحول کو فروغ دیا جائے تو بے رزگاری کا خاتمہ ہوسکتا ہے جب وسائل پر عوام کی دسترس نہیں ہوگی توصورتحال خراب رہے گی انہوںنے قرار داد کی حمایت کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ بلوچستان کے وسائل اور محرومیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے زمینداروں کے قرضے معاف کئے جائیں ۔ جے یوآئی کے رکن میر زابد علی ریکی نے کہا کہ بلوچستان ہر حوالے سے نظر انداز ہے زمیندار خشک سالی اور بجلی کی لوڈشیڈنگ سے پریشان ہیں زمیندار آخر کہاں جائیں وزیراعظم کوئٹہ آرہے ہیں پی ٹی آئی کے ارکان ان کے سامنے زمینداروں کے مسائل رکھیں یہ ہمارا حق ہے اور ہمیں ملنا چاہئے امید ہے کہ وزیراعظم صوبے کے زمینداروں کو خوش خبری دیں گے ۔
صوبائی وزیر ریونیو میر سلیم کھوسہ نے تجویز دی کہ قرار داد کو پورے ایوان کی مشترکہ قرار داد بنایا جائے انہوںنے کہا کہ زمینداروں کے مسائل اور ان کے مطالبات دیرینہ ہیں وفاقی محکموں کا رویہ درست نہیں ہے شدید گرمی میں بھی نصیر آباد اور سبی ڈویژن کو بجلی نہیں دی جارہی جس کی وجہ سے پانی کی شدید قلت ہوگئی ہے کیسکو بجلی فراہم کرنے کو تیار نہیں پانی کے ساتھ لاکھوں لوگوں کا روزگار وابستہ ہے پٹ فیڈرسے چھ ہزار سات سو کیوسک کی بجائے دو ہزار کیوسک پانی مل رہا ہے اسی طرح2010ء اور2012ء کے سیلابوں میں بھی زمینداروں کے نقصانات کے باوجود قرضے معاف نہیں ہوئے ۔ کیرتھر اور گڈ وبیراج میں بلوچستان کی نمائندگی نہ ہونے کی وجہ سے پانی کا مسئلہ جوں کا توں ہے ۔جے یوآئی کے رکن اصغر علی ترین نے کہا کہ بلوچستان کے زمیندار پریشان ہو کر باغات ختم کرنے پر مجبور ہیں کیسکو نے پشین کے زمینداروں کے ساتھ نو ہزار روپے ماہانہ ادا کرنے پر آٹھ گھنٹے بجلی فراہم کرنے کا معاہدہ کیا مگر اس کے برعکس صرف چار سے چھ گھنٹے بجلی فراہم کی جارہی ہے وزیراعظم بلوچستان کے نمائندوں کو خیبر پشتونخوا کی طرز پر پیکج کیوں نہین دیتے خشک سالی کی وجہ سے لوگوں نے دیہاتی علاقوں سے شہروں کا رخ کرنا شروع کردیا ہے ۔ وزیراعلیٰ کے مشیر میر محمد خان لہڑی نے کہا کہ2010ء اور2012ء کے سیلابوں میں بھی زمینداروں کا نقصان ہوا ۔
پٹ فیڈر سے 6730کی بجائے 4کیوسک پانی آرہا ہے جبکہ کیر تھر کینال سے 24سو کی بجائے تین سے چار سو کیوسک پانی آرہا ہے قیامت خیز گرمی میں لوگ پانی اور بجلی سے محروم ہیں بجلی کی فراہمی کا دورانیہ بڑھا کر مسئلہ حل کیا جائے ۔صوبائی وزیر نور محمد دمڑ نے کہا کہ زمینداروں کے قرضے خشک سالی کی صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے معاف کرنے چاہئیں وزیراعظم عمران خان آرہے ہیں ان کا آنا بلوچستان سے محبت کااظہار ہے جس پر ان کے شکر گزار ہیں امید ہے کہ وزیراعظم بجلی کی فراہمی اور قرضوں کی فراہمی کا اعلان اور بلوچستان کے شمالی علاقوں کے لئے بھی ایک پیکج کا اعلان کریں گے وزیراعظم عمران خان کے ہوتے ہوئے مسائل اگرچہ ختم نہیں لیکن کم ضرور ہوئے ہیں بی این پی کے رکن احمد نواز بلوچ نے کہا کہ ہم وزیراعظم کا شکریہ تب ادا کرتے جب وہ زمینداروں کے قرضے معاف کریں گے زمینداروںنے اپنی زمینیں قرضوں کے عیوض گروی رکھی ہیں اگر قرضے معاف نہیں ہوئے تو ان کی زمینیں ضبط ہوجائیں گی انہوںنے کہا کہ واپڈا کے 55ارب روپے کے واجبات بھی ختم کئے جائیں انہوںنے کہا کہ نوشکی اور تفتان بارڈر کی بندش سے لوگ پینے کے پانی سے بھی محروم ہیں ۔
پی ٹی آئی کے رکن مبین خلجی نے کہا کہ قرضے معاف کرنے کا معاملہ وزیراعلیٰ کے ذریعے وزیراعظم تک پہنچایا گیا ہے اس طرح نہیں ہوسکتا کہ ایک نوٹیفکیشن کو مد نظر رکھ کر قرضے معاف کئے جائیں سندھ اسمبلی میں نادر مگسی نے کہا ہے کہ سندھ حکومت بلوچستان کو پانی نہیں دے رہی مگر یہاں کوئی بلاول ، کوئی مولانا فضل الرحمان تو کوئی مریم نواز کو ناراض نہیں کرنا چاہتا اس لئے ان کے نام نہیں لئے جاتے پنجاب نہیں بلکہ بلوچستان کی حق تلفی اور پانی چوری سندھ کررہا ہے ۔ قرار داد میں سندھ کی بلوچستان کے ساتھ زیادتی کا بھی ذکر شامل کیا جائے ۔ انہوںنے کہا کہ کچھی کینال کا منصوبہ آٹھ ارب روپے کی لاگت سے شروع ہونے جارہا ہے اگرچہ بلوچستان کے مسائل زیادہ ہیں لیکن وزیراعظم عمران خان نے بلوچستان پر خصوصی توجہ دی ہے عوام اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں ژوب کوئٹہ روڈ سمیت دیگر منصوبے وزیراعظم کی خصوصی دلچسپی سے شروع کئے جارہے ہیں انہوںنے کہا کہ قرار داد منظوری کے بعد وفاق کو بھی ارسال کی جائے تاکہ ان کی توجہ اس جانب مبذول ہو جبکہ وزیراعظم عمران خان سے اگر ملاقات ہوئی تو اس معاملے کو ان کے سامنے بھی اٹھائوں گا۔
جے یوآئی کے رکن سید عزیز اللہ آغا نے کہا کہ ہمارا حق ہے کہ ہم مولانا فضل الرحمان ، مریم نواز ، محمودخان اچکزئی کا دفاع کریں عمران خان کے یوٹرنز سے پوری قوم آگاہ ہے مولانا فضل الرحمان عالمی سطح کے عظیم لیڈر ہیں ان کا نام لیتے ہوئے احتیاط برتی جائے وہ ہمارے دلوں میں رہتے ہیں اس موقع پر مبین خان خلجی اور اپوزیشن ارکان کے مابین تند وتیز جملوں کا تبادلہ ہوا ارکان بیک وقت بولتے رہے بعدازاں قرار داد کو ایوان کی مشترکہ قرار داد کے طور پر منظور کرلیا گیا صوبائی وزیر لائیواسٹاک مٹھا خان کاکڑ نے کہاکہ جنگلات کی کٹائی کے باعث ماحولیات پر اثر پڑرہاہے ژوب میں زیتون کے جنگلات موجود ہیں تاہم گیس نہ ہونے کی وجہ سے کاٹا جارہاہے جب کہ زیارت میں بھی صورتحال ایسی ہے انہوں نے وزیراعظم عمران خان سے مطالبہ کیاکہ بلوچستان کے وہ اضلاع جہاں گیس باآسانی پہنچ سکتی ہے ان اضلاع کو گیس فراہم کرکے جنگلات کو تحفظ فراہم کیاجائے جمعیت علماء اسلام کے رکن اسمبلی مکھی شام لعل لاسی نے کہاکہ وڈھ میں ہندو تاجر کو گولیاں مار کر قتل کردیاگیا وزیر داخلہ اسمبلی فلور پر کھڑے ہوکر کہتے ہیںکہ سب ٹھیک ہوجائے گاانہوں نے کہاکہ حکومت صوبے میں امن وامان کے قیام میں ناکام ہوچکی ہے وڈٖھ جیسے چھوٹے علاقوں میں بھی ہندو برادری کوتحفظ فراہم نہیں تو انہیں کہیں اور منتقل کیاجائے ہندو تاجر کے قتل میں ملوث ملزمان کو فوری گرفتار کئے جائیں ۔
جمعیت علماء اسلام کے رکن اسمبلی میر یونس عزیز زہری نے کہاکہ خضدار میں میر غوث بخش بزنجو فٹ بال اسٹیڈیم کی گراسی کیلئے میں مشیر کھیل عبدالخالق ہزارہ کے پاس گیا اور ان سے تحریری طورپر بھی درخواست کی مگر اس پرعملدرآمد نہیں ہوا آج خضدار کے کھلاڑی اور نوجوان بازار میں جولی پھیلا کر گراسی کیلئے چندہ کررہے ہیں جو میرے لئے باعث شرم ہے انہوں نے کہاکہ مذکورہ اسٹیڈیم میں محکمہ کھیل کا تعینات عملہ 18لوگ صرف تنخواہیں لے رہے ہیں جبکہ خضدار میں 32کے قریب افراد تعینات ہیں مگر کوئی نظرنہیں آرہا ،صوبائی مشیر عبدالخالق ہزارہ نے کہاکہ صوبے میں 17سال بعد آل پاکستان فٹ بال ٹورنامنٹ ہوا،ہاکی ٹورنامنٹ کاانعقاد کیا گیا ہر ضلع میں دو فٹ سال گرائونڈ بنائے جارہے ہیں نیشنل سپورٹس کمپلیکس بنائے جارہے ہیں کم از کم حکومت کے اس اقدام کو بھی سراہا جائے انہوں نے رکن اسمبلی کو یقین دہانی کرائی کہ کسی ضلع کے ساتھ ناانصافی نہیں ہوگی کچھ ذمہ داریاں کمیونٹی کے لوگوں پر بھی عائد ہوتی ہے بی این پی کے پارلیمانی لیڈر ملک نصیراحمدشاہوانی نے کہاکہ کوئٹہ کے چار یونین کونسل کو میٹروپولیٹن کارپوریشن میں شامل کیاگیا اور آج تک وہاں صفائی نہیں ہوئی ہے کچرے کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں.
سابق صوبائی وزیر بلدیات نے وزیراعلیٰ کو اس حوالے سے سمری بھی ارسال کی جسے منظور نہیں کیا گیا گزشتہ روز وزیراعلیٰ نے کہاکہ 40ارب روپے لیپس ہورہے ہیں مگر اب بھی وقت ہے یہ رقم صوبے پر خرچ کی جاسکتی تھی مذکورہ رقم سے کوئٹہ شہر کے غیر فعال ٹیوب ویلوں پر پانچ سے چھ ارب روپے خرچ کئے جائیں تو80فیصد لوگوں کو پینے کا پانی مل سکتاہے ،یونین کونسل کی صفائی کیلئے مشینری خریدی جائے اور عملہ تعینات کیاجائے اس سے صفائی کی صورتحال بہتر ہوگی 5ارب روپے کیسکو کو واجبات کی مد میں ادا کی جائے تاکہ زمینداروں کو بجلی مل سکیں جبکہ 20ارب روپے لسبیلہ پر خرچ کئے جائیں جو آج بھی صوبے کے پسماندہ اضلاع میں سے دوسرے نمبر پر ہے ،پشتونخواملی عوامی پارٹی کے رکن اسمبلی نصراللہ زیرے نے کہاکہ وزیراعلیٰ نے کہاہے کہ اپوزیشن کے باعث بلوچستان کے 40ارب روپے خرچ نہیں ہوئے یہ اپوزیشن پر بہت بڑا الزام ہے حکومت وضاحت کرے ہم نے پہلے کہاتھاکہ موجودہ حکومت نااہل ہے اس میں اہلیت نہیں ہے انہوں نے کہاکہ اپوزیشن کے حلقوں میں دو سالوں سے کوئی ترقیاتی کام نہیں کیا گیا حکومت اپنے لوگوں کو نواز رہی ہے کنٹریکٹر ز کہہ رہے ہیں کہ کرپشن میں پیسے وصول کئے جارہے ہیں انہوں نے کہاکہ حکومت کو گھر جانا چاہیے اس دوران حکومتی واپوزیشن اراکین کے درمیان تند وتیز جملوں کا تبادلہ ہوا اور دونوں جانب سے اراکین مسلسل بولتے رہے جس کی وجہ سے ایوان میں کان پڑی آواز بھی سنائی نہ دی ۔