ایران کے 13ویں صدارتی انتخابات کیلئے پولنگ جاری ہے۔ سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے اپنا ووٹ پول کردیا ہے۔
الیکشن سے قبل آخری لمحات میں تین امیدوار الیکشن سے دستبردار ہوگئے اور4 امیدوار مدمقابل ہیں۔
ابراہیم رائیسی، عبدالناصر، امیر حسین قاضی اور محسن رضائی میں کڑا مقابلہ ہے۔ ابراہیم رئیسی مضبوط ترین امیدوار ہیں اور ان کا مقابلہ عبدالناصر ہمتی سے ہے۔
صدارتی منصب کیلئے51 فیصد ووٹ حاصل کرنا ہوں گے۔ اور اگر ایسا نہیں ہوتا تو انتخابات کے ایک ہفتے بعد سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے 2 امیدواروں کے درمیان دوبارہ مقابلہ ہو گا۔
سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ آج کا ایرانی قوم کا اہم دن ہے۔ ہمیشہ عوام کو انتخابات میں شرکت کی دعوت دیتا آیا ہوں۔ ایران انتخابات کے نتیجے میں عالمی سطح پر بھرپور فائدہ اٹھا سکے گا۔
صدارتی انتخاب میں 5 کروڑ 90 لاکھ ووٹرز اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے۔ ایران میں صدر کا انتخاب براہ راست عوام کےووٹوں سے ہوتا ہے۔ 18 برس یا اس سےزیادہ عمر کے شہری اپنا حق راہ دہی استعمال کر سکتے ہیں۔
ایران کے موجودہ صدر حسن روحانی 2013 میں پہلی بار صدر منتخب ہوئے تھے جب کہ 2017 کے انتخابات میں وہ دوبارہ صدارتی الیکشن جیت گئے تھے۔ ایران کے آئین کے تحت وہ مسلسل تیسری بار صدارتی الیکشن لڑنے کے اہل نہیں ہیں۔
یران میں ہر چار سال بعد صدر کا انتخاب کیا جاتا ہے جس کے امیدواروں کی منظوری شوریٰ نگہبان دیتی ہے۔ اسی لیے شوریٰ نگہبان کو ایران کا طاقت ور ترین ادارہ تصور کیا جاتا ہے۔ آئین کے مطابق رہبرِاعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای کی ہدایت پر شوریٰ صدارتی امیدواروں کے لیے قواعد و ضوابط جاری کرنے کی مجاذ ہے۔
شوری نگہباں کے 12 ارکان ہوتے ہیں جن میں سے 6 کا تقرر ایران کے سپریم لیڈر کرتے ہیں، جب کہ چھ قانونی ماہرین کو وزارت قانون نامزد کرتی ہے۔
اس بار امیدواروں کے لیے ریاستی اداروں میں کم سے کم چار برس کام کرنے کی شرط رکھی گئی ہےاور ان کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ 20 لاکھ سے زائد آبادی والے شہروں کے گورنررہے ہوں، یا کسی وزارت پرفائزرہے ہوں اس کے علاوہ مسلح افواج میں میجر جنرل یا اس سے زیادہ رینک کے افسران کو بھی صدارتی الیکشن لڑنے کی اجازت ہے ۔