کابل: افغانستان سے جیسے جیسے غیر ملکی افواج واپس جارہی ہیں ، ساتھ ہی ساتھ طالبان نے بھی زیادہ سے زیادہ علاقوں کا کنٹرول سنبھالنا شروع کردیا ہے۔افغان میڈیا کے مطابق 20 سال تک افغانستان میں تعینات رہنے کے بعد جرمن فوج کا وہاں سے انخلا مکمل ہوگیا اور گزشتہ روز آخری جرمن فوجی بھی اپنے ملک واپس روانہ ہوگیا۔ جرمنی کی وزیر دفاع اینگریٹ کرامپ کارین باوا نے بتایا کہ جرمن فوج کا آخری سپاہی بھی محفوظ طور پر افغانستان سے واپس جرمنی اپنے گھر پہنچ گیا۔
انہوں نے افغانستان میں 2001ء سے تعینات رہنے والے ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ فوجیوں کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے جنگ میں حصہ لیا اور ان پر فخر کا اظہار کیا۔ ان ڈیڑھ لاکھ میں جرمنی کے 11 سو فوجی شامل تھے جن میں سے 59 جنگ میں ہلاک ہوئے۔ جو دوسری جنگ عظیم کے بعد جرمن فوج کی سب سے زیادہ ہلاکتیں ہیں۔
دوسری جانب غیر ملکی افواج کے انخلا کے ساتھ ہی طالبان نے بھی اپنے حملوں میں اضافہ کردیا ہے۔ کچھ ہی روز پہلے انہوں نے قندوز میں تاجکستان کی سرحد پر مکمل قبضہ کرلیا تھا۔ اب انہوں نے ملک کے وسطی شہر غزنی پر قبضہ کرنے کے لیے ایک بڑا حملہ کیا ہے اور وہاں افغان فورسز کے ساتھ ایک خوفناک لڑائی جاری ہے۔
افغٖان حکام کے مطابق اگرچہ صوبہ غزنی میں طالبان کا پہلے سے گہرا اثر و رسوخ ہے لیکن اب مرکزی شہر پر انہوں نے مختلف سمتوں سے بہت ہی خوفناک حملہ کیا ہے۔ غزنی کو قندھار سے ملانے والی مرکزی شاہراہ پر جھڑپیں جاری ہیں، شہر کے شیخ عجل اور گنج سمیت مختلف علاقوں میں چوکیوں کے نزدیک لڑائی میں شدت آگئی ہے جس کے باعث مرکزی بازار میں دکانیں بند ہوگئی ہیں اور کرفیو کا سماں ہے۔
سڑکیں بند ہیں اور مواصلاتی رابطوں میں خلل پڑ رہا ہے جس کے باعث جانی نقصان کی صحیح اطلاعات موصول نہیں ہورہی ہیں۔
اپریل میں نیٹو نے افغانستان سے اپنے 7 ہزار فوجی واپس بلانے کا اعلان کیا تھا، جبکہ امریکی صدر جوبائیڈن نے امریکی فوج کے مکمل انخلا کے لیے 11 ستمبر کی حتمی تاریخ دی ہے۔
مئی کے شروع سے طالبان نے افغان فوج کے خلاف ایک بڑی جنگی مہم چھیڑی ہے جس میں ان کا کہنا ہے کہ اب تک افغانستان کے 400 اضلاع میں سے 90 پر مکمل کنٹرول حاصل ہوچکا ہے۔