امریکا نے افغانستان کے بعد عراق سے بھی اپنی فوجیں نکالنے کا اعلان کردیا ہے۔پیر کے روز امریکی صدر جوبائیڈن نے عراقی وزیراعظم مصطفیٰ الکاظمی سے وائٹ ہاؤس میں اہم ملاقات کے بعد اعلان کیا کہ عراق میں امریکی جنگی مشن روان سال کے آخر تک ختم ہوجائے گا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق یہ اعلان امریکہ کی خارجہ پالیسی میں بڑی تبدیلیوں کی عکاسی کرتا ہے۔
امریکی صدر جوبائیڈن نے کہا کہ “انہیں لگتا ہے کہ عراق میں حالات اب ٹھیک ہو رہے ہیں، اس لیے سال کےآخر تک جنگی مشن سے نکل جائیں گے، لیکن داعش سے نمٹنے کے لئے عراقی فوج کی تربیت اور مدد جاری رکھیں گے۔”
امریکی صدر کا یہ بھی کہنا تھا کہ امریکا عراق کی جمہوریت کو مستحکم کرنے کی حمایت کرتا ہے جس کے لیے اکتوبر میں انتخابات کو یقینی بنایا جائے گا، جبکہ دونوں ممالک سلامتی کے تعاون ، داعش کے خلاف مشترکہ لڑائی کے لئے بھی پرعزم رہیں گے۔عراقی وزیراعظم نے امریکہ کے دورے سے قبل بیان دیا تھا کہ امریکہ کے جنگی مشن کو ختم کرنے کا وقت آگیا ہے۔ اور وہ سمجھتے ہیں کہ عراق کی سرزمین پر غیرملکی لڑاکا فورسز کی اب ضرورت نہیں رہی۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق امریکا کا عراق اور افغانستان سے فوجیں نکالنے کا مقصد چین کے اثرو رسوخ کو خطے میں بڑھنے سے روکنے کے لیے ساری توجہ ان پر مرکوز کرنا ہے۔ ان جنگوں میں امریکا سالوں سے لاکھوں ڈالرز خرچ کر رہا ہے تاہم جوبائیڈن انتظامیہ کا ماننا ہے کہ چین ان کے لیے مستقل کا سب سے بڑا چیلنج ہے۔
بیس سالوں بعد افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کا سلسلہ بھی جاری ہے، رواں ماہ امریکا نے افغانستان سے انخلا کی ڈیڈلائن مزید کم کردی تھی، امریکی صدر نے اعلان کیا تھا کہ افغانستان میں امریکہ کا فوجی مشن11ستمبر کی بجائے 31 اگست کو مکمل ہو گا۔