وزیر اعظم عمران خان نے امریکا کے افغانستان میں پہلے مداخلت کرنے اور پھر پوزیشن کمزور ہونے پر سیاسی تصفیہ طلب کرنے کے معاملے پر سوالات اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ امریکا نے افغانستان میں صورتحال بہت خراب کردی ہے۔
وزیر اعظم کے یہ ریمارکس اس وقت سامنے آئے جب امریکی فوج اور نیٹو افغانستان میں مداخلت کو ختم کرنے کے آخری مراحل میں ہیں۔
منگل کی رات کو نشر کیے جانے والے ایک امریکی نیوز پروگرام پی بی ایس نیوز آوور میں انٹرویو دیتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ ’مجھے لگتا ہے کہ امریکا نے صورتحال بہت خراب کردی ہے‘۔
وزیر اعظم نے امریکا کو ’افغانستان میں فوجی حل تلاش کرنے کی کوشش کرنے پر تنقید کی اور کہا کہ ایسا کبھی تھا ہی نہیں‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ مجھ جیسے لوگ جو کہتے رہے کہ فوجی حل ممکن نہیں، جو افغانستان کی تاریخ جانتے ہیں، ہمیں امریکا مخالف کہا گیا، مجھے طالبان خان کہا جاتا تھا‘۔
انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ جب امریکا کو یہ احساس ہوا کہ افغانستان میں کوئی فوجی حل نہیں ہے ’بدقسمتی سے امریکیوں شمالی اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن فورسز نیٹو سودے بازی کی پوزیشن کھو چکے تھے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکا کو بہت پہلے سیاسی تصفیے کا انتخاب کرنا چاہیے تھا جب افغانستان میں ڈیڑھ لاکھ کے قریب نیٹو فوجی موجود تھے۔
انہوں نے کہا پروگرام کی میزبان جوڈی ووڈ رف کو بتایا کہ ‘تاہم ایک بار جب انہوں نے فوج کو بمشکل 10 ہزار کر دیا تھا اور پھر جب انہوں نے انخلا کی تاریخ بتادی تھی تو طالبان نے سوچا کہ وہ جیت گئے ہیں اور اس وجہ سے اب انہیں سیاسی حل کے لیے مجبور کرنا مشکل ہوگیا ہے‘۔
جب انٹرویو لینے والے نے سوال کیا کہ کیا ان کا خیال ہے کہ طالبان کی بحالی افغانستان کے لیے ایک مثبت پیشرفت ہے رو وزیر اعظم نے اس بات کا اعادہ کیا کہ اس کا واحد بہت نتیجہ ایک سیاسی تصفیہ ہوگا جو جامع ہو‘۔
انہوں نے کہا ظاہر ہے کہ طالبان اس حکومت کا حصہ ہوں گے۔
وزیر اعظم نے ’بدترین صورتحال‘ بیان کی جہاں افغانستان خانہ جنگی کا شکار ہوسکتا ہے اور کہا کہ ’پاکستان کے نقطہ نظر سے یہ بدترین صورت حال ہے کیونکہ تب ہمیں دو مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے جن میں سے ایک مہاجرین کا مسئلہ ہے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’پہلے ہی پاکستان 30 لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کی میزبانی کررہا ہے اور ہمیں جو خدشہ لاحق ہے وہ یہ ہے کہ ایک طویل خانہ جنگی مزید مہاجرین کو لائے گی اور ہماری معاشی صورتحال ایسی نہیں ہے کہ ہم مزید آمد برداشت کرسکیں۔
دوسرے مسئلے کی تفصیل دیتے ہوئے انہوں نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ سرحد پار سے ہونے والی ایک ممکنہ خانہ جنگی ’پاکستان میں داخل ہوسکتی ہے‘۔
وزیر اعظم نے وضاحت کی کہ طالبان پشتون ہیں اور اگر یہ افغانستان میں خانہ جنگی کا آغاز ہوا تو ہماری طرف کے پشتون بھی اس کی طرف راغب ہوجائیں گے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم ایسا نہیں چاہتے ہیں‘۔
جب پاکستان کی افغانستان کو مبینہ فوجی، انٹیلیجنس اور مالی مدد کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ ’مجھے یہ انتہائی غیر منصفانہ لگتا ہے‘۔
وزیر اعظم نے یاد دلایا کہ افغانستان میں امریکی جنگ کے نتیجے میں 70 ہزار پاکستانیوں نے اپنی جانیں دی ہیں جب کہ 11 ستمبر 2001 کو نیویارک میں ہونے والے واقعے کا پاکستان کا کوئی تعلق نہیں تھا‘، اس وقت القاعدہ افغانستان میں مقیم تھی اور ’پاکستان میں کوئی عسکریت پسند طالبان موجود نہیں تھے‘۔
انہوں نے دوہرایا کہ ’ہمارا اس سے کوئی لینا دینا نہیں تھا، افغانستان کی جنگ کے نتیجے میں پاکستان کی معیشت کو 150 ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے‘۔