افغانستان میں طالبان کی پیش قدمی اور مختلف صوبائی دارالحکومتوں پر قبضے کے بارے میں امریکہ کا کہنا ہے کہ ملک کا دفاع کرنا افغان سکیورٹی فورسز کی ہی ذمہ داری ہے۔امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ امریکہ کا افغانستان میں فوجی مشن 31 اگست کو مکمل طور پر اپنے اختتام کو پہنچ جائے گا اور افغانستان کی عوام کو اپنے ملک کے مستقبل کا فیصلہ خود کرنا ہوگا اور وہ امریکیوں کی ایک اور نسل کو 20 سالہ جنگ میں دکھیلنا نہیں چاہتے۔
طالبان نے گذشتہ چند روز میں کئی بڑے شہروں پر قبضہ کر لیا ہے جس میں چھ صوبائی دارالحکومت بھی شامل ہیں۔ پیر کے روز انھوں نے شمالی صوبے سمنگن کے دارالحکومت ایبک پر بھی قبضہ کرنے میں کامیابی حاصل کر لی۔
اس سے قبل وہ نمروز صوبے کے دارالحکومت زرنج، سرِ پُل، تخار صوبے کے شہر تالقان، قندوز اور ہلمند صوبے کے دارالحکومت لشکر گاہ پر قبضہ کر چکے ہیں۔
پینٹاگون کے ترجمان جان کربی نے کہا ہے کہ افغانستان میں جاری صورتحال سے امریکہ کو بہت تشویش لاحق ہے لیکن انھوں نے کہا کہ افغان فوج کے پاس طالبان سے جنگ کرنے کی پوری صلاحیت ہے۔
‘یہ ان کی اپنی فوج ہے۔ یہ ان کے اپنے صوبائی دارالحکومت ہیں، یہ ان کے اپنے لوگ ہیں جن کا دفاع کرنا ہے، اور یہ سب ان کی قیادت پر آ جاتا ہے کہ وہ اس موقع پر کیسی کارکردگی دکھاتے ہیں۔’
جب جان کربی سے پوچھا گیا کہ افغانستان کی فوج کی جانب سے مناسب دفاع نہ ہونے کی صورت میں امریکی فوج کیا کرے گی، تو جواب میں ترجمان کا کہنا تھا: ‘زیادہ کچھ نہیں۔’
امریکہ کا ارادہ ہے کہ وہ افغان فوج کو تربیت اور اسلح فراہم کرتے رہیں گے لیکن ایک اہم سوال یہ ہے کہ آیا 31 اگست کے بعد وہ فضائی حملے جاری رکھیں گے یا نہیں؟
پینٹاگون کے ترجمان جان کربی نے کہا کہ اس بارے میں ابھی حتمی فیصلہ نہیں لیا گیا۔ یاد رہے کہ ماضی میں امریکہ کی جانب سے کہا گیا تھا کہ وہ فضائی حملے صرف ‘کاؤنٹر ٹیرر ازم آپریشن’ کی مد میں کریں گے۔
امریکی انتظامیہ نے طالبان کو بھی تنبیہ کی ہے کہ اگر انھوں نے طاقت کے زور پر قبضہ کیا تو ان کو کوئی تسلیم نہیں کرے گا۔اقوام متحدہ کے مطابق افغانستان میں طالبان اور سکیورٹی فورسز کے درمیان تین دن سے جاری شدید لڑائی میں کم از کم 27 بچے ہلاک ہوئے ہیں۔
یہ 27 اموات افغانستان کے تین صوبوں قندھار، خوست اور پکتیا میں ریکارڈ کی گئیں ہیں۔ اقوام متحدہ کے بچوں کے ادارے یونیسیف کے مطابق ان علاقوں میں گزشتہ تین دن کے دوران تقریباً 136 بچے زخمی بھی ہوئے ہیں۔
یاد رہے کہ اب تک مجموعی طور پر افغانستان کے چھ صوبائی دارالحکومت طالبان کے قبضے میں جا چکے ہیں جن میں ایبک، قندوز، سرِ پُل، تالقان، شبرغن اور زرنج شامل ہیں جبکہ کئی مقامات پر حکومتی فورسز اور طالبان میں شدید جھڑپیں جاری ہیں۔
اقوام متحدہ کے بچوں کے ادارے یونیسیف نے کہا ہے کہ ‘بچوں کے خلاف سنگین خلاف ورزیوں میں تیزی سے اضافے’ سے ادارے کے خدشات میں اضافہ ہوا ہے۔
دوسری جانب خصوص امریکی مندوب برائے افغانستان زلمے خلیل زاد قطر روانہ ہو گئے ہیں جہاں وہ ‘افغان طالبان پر زور دیں گے کہ وہ عسکری کارروائیں بند کریں اور سیاسی طور پر معاملات طے کریں۔’
امریکی سٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی جانب سے جاری کیے گئے بیان کے مطابق تین روز تک جاری رہنے والے ان مذاکرات میں مختلف حکومتوں کے نمائندے اور دیگر ادارے افغانستان میں بڑھتے پرتشدد واقعات کو کم کرنے کی کوشش کریں گے تاکہ جنگ بندی ہو سکے اور اس بات کا عہد کیا جائے کہ ایسی حکومت کو تسلیم کریں جو بزور طاقت نہ آئی ہو۔
نام نہ بتانے کی شرط پر امریکی حکام نے کہا ہے کہ امریکی فوج کی جانب سے صدر جو بائیڈن کو پیغام دیا گیا تھا کہ امریکی فوج کے انخلا کے بعد افغانستان کے کئی صوبائی دارالحکومت طالبان کے قبضے میں جا سکتے ہیں لیکن انھیں بھی اس بات کی حیرانی تھی کہ کتنی سرعت سے انھوں نے ان شہروں پر قبضہ کر لیا۔
ہفتے اور اتوار کو امریکہ نے طالبان پر متعدد فضائی حملے کیے تام ایک اور سرکاری اہلکار نے کہا کہ افغان فوج نے امریکہ سے کوئی مدد طلب نہیں کی جب قندوز پر طالبان کی پیشقدمی جاری تھی۔
اب تک مجموعی طور پر افغانستان کے چھ صوبائی دارالحکومت طالبان کے قبضے میں جا چکے ہیں جن میں ایبک کے علاوہ قندوز، سرِ پُل، تالقان، شبرغن اور زرنج شامل ہیں۔
اس سے قبل طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کے جنگجوؤں نے پیر کی صبح شمالی شہر مزارِ شریف پر چاروں جانب سے حملہ کیا اور کوٹا برگ کے علاقے سے شہر میں داخل ہو گئے ہیں تاہم بلخ صوبے کے دہدادی ضلع کے سربراہ سید مصطفی سادات نے افغان اسلامک پریس کو بتایا کہ لڑائی ابھی بھی جاری ہے اور صوبائی دارالحکومت کے مضافات تک محدود ہے۔
اطلاعات کے مطابق مزار شریف کے علاوہ پُلِ خمری اور بلخ صوبے کے شہر کوٹ برگ پر بھی طالبان نے حملہ کیا جبکہ شمالی صوبے سمنگن کے ضلع سلطان پر بھی قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ افغان سروس کے مطابق جنوبی شہر لشکرگاہ اور ہلمند میں اس وقت شدید لڑائی جاری ہے جس کے نتیجے میں گذشتہ 24 گھنٹوں میں لشکر گاہ میں اب تک 20 شہریوں کی ہلاکت ہو چکی ہے۔
مزید اطلاعات کے مطابق لشکر گاہ میں پولیس ہیڈ کوارٹر کے باہر دھماکوں کی آوازیں بھی سنائی دی گئی ہیں۔
گذشتہ شب پکتیا ریڈیو سٹیشن کے سربراہ اور سرکاری پراسیکیوٹر طوفان عمری کو کابل جاتے ہوئے نامعلوم حملہ آوروں نے قتل کر دیا۔ اس سے دو روز قبل جمعہ کو افغان حکومت کے میڈیا ڈائریکٹر دوا خان میناپل کو بھی طالبان نے حملہ کر کے قتل کر دیا تھا۔