امریکہ میں متعین پاکستانی سفیر نے پاکستان کی جانب سے کابل کی طرف پیش قدمی میں طالبان کی کسی بھی قسم کی مدد کے تاثر کو مسترد کردیا۔انہوں نے کہا کہ پاکستان نے ہمیشہ افغانستان میں مکمل طور پر امن عمل کی بحالی میں معاونت کی ہے اور آئندہ بھی کرتا رہے گا۔
امریکہ میں متعین پاکستان کے سفیر ڈاکٹر اسد مجید خان نے امریکی میگزین فارن پالیسی کو انٹرویو میں کہا ہے کہ افغانستان پر طالبان کے کنٹرول نے امریکا اور پاکستان کو موقع فراہم کیا ہے کہ وہ شکوک و شبہات کے ماحول کے بجائے مل کر کام کریں۔
افغانستان کے حوالے سے امریکا اور پاکستان کے درمیان مکمل طور پر اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔ امریکہ چاہتا ہے کہ افغانستان میں تمام فریقین کے مابین افہام وتفہیم ہو،یہی ہم بھی چاہتے ہیں۔امریکا چاہتا ہے کہ تشدد کم ہواور ماضی کے ثمرات کا تحفظ ہو ،ہم بھی یہی چاہتے ہیں۔پاکستان کے خدشات کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے سفیر پاکستان نے کہا کہ ہم افغانستان میں ایک جامع حکومت کے خواہش مند ہیں اور یہی توقع رکھتے ہیں کہ ایک جامع امن عمل کے ذریعے اس طرح کی حکومت قائم ہو گی۔
ان کا کہنا ہے کہ افغانستان میں حکومت سازی کے دوران ملک کی متنوع آبادی کا عکس بھی نظر آنا چاہیے۔ ہم افغانستان میں زمینی حقائق دیکھ رہے ہیں اورطالبان کے حالیہ اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ طالبان بھی بین الاقوامی برادری کی توقعات سے آگاہ ہیں۔
انہوں نے کہا ہے کہ سب سے بنیادی چیز دہشت گردی ہے اور کسی اور فریق کی طرح اس پر ہمیں بھی اتنی ہی تشویش ہے۔ ہم امریکا اور بین الاقوامی برادری کے ساتھ جہاں تک ممکن ہو سکا تعاون کریں گے اور ماضی میں بھی ہم نے اس حوالے سے بھرپور تعاون کیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اب تک طالبان نے انسانی حقوق اور لڑکیوں کی تعلیم جیسے مسائل پر عالمی برادری کی بات سنی ہے اور امید ہے کہ وہ ایسا کرتے رہیں گے۔یہ ایک خوش آئند امر ہے کہ وہ یقین دہانیاں کرا رہے ہیں اور وہ ایسا اس لیے کر رہے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ عالمی برادری کی نظریں ان پر ہیں۔
انہوں نے کہا ہے کہ امریکا ، پاکستان ، چین اور روس کے “ٹرائیکا” کی 10 اور 11 اگست کو دوحہ میں ایک اچھی ملاقات ہوئی ہے اور ہم تمام گروپوں کی نمائندگی کے حامل اہم شراکت دار وں کے ساتھ رابطے میں ہیں۔
بھارت کی جانب سے پاکستان پر لگائے جانے والے الزامات کے حوالہ سے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے افغان سرزمین ہمارے خلاف استعمال ہوتی رہی ہے۔پاکستان مخالف سرگرمیوں کی مہم کو بھارت کی واضح سرپرستی حاصل رہی ہے تاہم افغانستان کو چاہیے کہ وہ اس مسئلہ کو حل کرے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی جانب سے کاوشوں کے باوجود بھارتی وزیر اعظم ،پاک بھارت تعلقات کو بھارت کی اندرونی سیاست کی نظر سے دیکھتے ہیں جو صورتحال کی بہتری میں رکاوٹ ہے۔
پاکستان مخالف بیانیہ بھارتی وزیراعظم کی سیاست کے لئے تو مناسب ہو سکتا ہے اس لئے اس پر وہ مسلسل عمل پیرا ہیں لیکن امن کیلئے نہیں۔ بھارتی وزیراعظم نے کشمیر کے مسئلہ کے حوالہ سے یکطرفہ فیصلہ کیا جس کی وجہ سے کشمیر کی صورتحال مسلسل ابتر ہو رہی ہے