افغانستان کے بڑے حصے پر کنٹرول حاصل کرنے والی مذہبی و سیاسی تنظیم طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا ہے کہ ملک پر ان کے کنٹرول کے بعد سے تشدد یا قتل و غارت گری کا کوئی واقعہ سامنے نہیں آیا، امریکا نے 31 اگست تک انخلا مکمل نہ کیا تو نئے لائحہ عمل کا اعلان کریں گے۔
کابل میں ترجمان افغان طالبان ذبیح اللہ مجاہد نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان گزشتہ 20 سال بے امنی کا شکار رہا، افغانستان 20 سال جنگ و جدل و اندرونی خانہ جنگی کا شکار رہا۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت ملک و قوم کی خدمت کرنے والے ادارے فعال ہیں، تمام اسپتال مکمل طور پر فعال ہیں، لوگوں کا علاج ہورہا ہے، سرکاری ٹی وی اور ریڈیو کی نشریات مسلسل چل رہی ہیں، تمام بنکوں نے آزادی کے ساتھ کام شروع کردیا ہے۔
ذبیح اللہ مجاہد نے افغان عوام سے اپیل کی کہ وہ افغانستان میں رہنے کوترجیح دیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ حکومت سازی کا عمل جلد مکمل ہوجائے، افغان عوام کے لیے کابل ائیرپورٹ کا راستہ مکمل طور پر بند ہے، غیر ملکی افراد افغانستان چھوڑنا چاہیں تو ممانعت نہیں۔
ان کا کہنا تھاکہ تمام تعلیمی ادارے بھی کھلے ہیں،طلبہ اسکول جارہے ہیں، کوشش ہے کہ کابل میں ٹریفک کے مسائل پر جلد قابو پالیا جائے، کابل سمیت ملک کے دیگر علاقوں میں طبی عملہ مریضوں کا علاج کر رہا ہے۔
ذبیح اللہ نے اپیل کی کہ افغان عوام ملک سے باہرجانے کی بجائے افغانستان میں ہی رہیں اور ملکی ترقی میں ساتھ دیں۔
طالبان ترجمان نے کہا کہ کوشش کررہے ہیں کہ تمام مسائل کا حل گفت وشنید سےنکالا جاسکے، غیرملکی سفارت کاروں کو یقین دلاتے ہیں کہ وہ افغانستان میں محفوظ ہیں، انہیں کوئی خطرہ نہیں، غیرملکی سفارت کاروں اور سفارتخانوں کی مکمل سکیورٹی کو یقینی بنایا گیا ہے۔
ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ غیرملکی سفارت کاروں سے بھی توقع ہے کہ افغانستان میں اپنی سرگرمیاں معمول کے مطابق جاری رکھیں گے۔
ترجمان طالبان نے کہا کہ امریکا اور دیگر غیر ملکی افواج وعدے کے مطابق مقررہ وقت پر افغانستان سے انخلا مکمل کریں۔ امریکی افواج کی افغانستان سے انخلا کی ڈیڈ لائن 31 اگست 2021 ہے۔
ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ امریکا کو پھر پیغام دیتے ہیں کہ وہ مقررہ وقت پر اپنے تمام فوجی افغانستان سے نکال لے، 31 اگست تک انخلا مکمل نہ ہونے کی صورت میں امریکا سے متعلق اپنے نئے لائحہ عمل کا اعلان کریں گے۔
ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ امید ہے پنجشیرکا معاملہ بھی بات چیت سے حل ہو جائے گا اور جنگ کی نوبت نہیں آئے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ افغانستان کی قومی فوج کی تشکیل جلد مکمل ہوگی، امید ہے تمام ممالک جلد کابل میں اپنے سفارت خانے دوبارہ کھول لیں گے، افغان عوام نے مسلسل خانہ جنگی سے بہت نقصان اٹھایا ہے اب ہم مکمل امن چاہتے ہیں، تمام افغان شہریوں کے لیے عام معافی کے اعلان پر مکمل کار بند ہیں۔
ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ افغانستان کی نئی قومی فوج کی تشکیل کا عمل جاری ہے، جلد مکمل ہوجائے گا۔
’خواتین گھروں میں رہیں جب تک ان کے اداروں میں سکیورٹی فول پروف نہیں ہوتی’
طالبان ترجمان نے کہا کہ نوکری پیشہ افغان خواتین سے درخواست ہے کہ جب تک ان کے اداروں پر سکیورٹی فول پروف نہیں ہو جاتی وہ گھروں پر رہیں، جب افغان طالبان مکمل سکیورٹی بحال کرلیں گے تو پھر خواتین اپنے اداروں میں آزادانہ جاسکیں گی۔
انہوں نے امریکا کو خبردار کیا کہ وہ افغان ہنرمندوں انجینیئرز وغیرہ کو ملک سے لے جانے سے گریز کرے۔
طالبان ترجمان ذبیح اللہ کا مزید کہنا تھا کہ افغانستان میں کسی صورت انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہوگی، پرانی دشمنیوں کو ختم کرکے مل کر امارات اسلامی افغانستان کیلئے کام کرنا ہے، افغان سرزمین کسی صورت دہشت گرد مقاصد کے لیے استعمال کرنے نہیں دیں گے۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان میں سی آئی اے کے نمائندے سے گفتگو ہوئی ہے، سفارتی تعلقات بہتر بنانے، غیر ملکی افواج کے انخلا پربات ہوئی ہے۔
ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ ہم نے شرعی نظام کے نفاذ کے لیے قربانیاں دی ہیں، افغانستان میں میڈیا مکمل طور پر آزاد ہے، غیر ملکی افواج کے مترجموں کی حفاظت کی یقین دہانی کی جاتی ہے، مترجموں کو ملک چھوڑنے کی کوئی ضرورت نہیں، طالبان جنگ اور خون خرابہ نہیں چاہتے۔
ترجمان طالبان نے کہا کہ امریکیوں کو افغان شہریوں کو ملک چھوڑنے پر اکسانا نہیں چاہیے، وہ ایسا کرنے سے باز رہیں۔
خیال رہے کہ گزشتہ روز طالبان نے کہا تھا کہ 31 اگست تک امریکا اور برطانیہ اپنا انخلا مکمل کریں اور اگر 31 اگست کے بعد بھی امریکی فوجی موجود رہتے ہیں تو اسے قبضے میں توسیع سمجھا جائے گا اور نتائج کے ذمہ دار وہ خود ہوں گے۔
طالبان کے اس بیان کے بعد برطانیہ، فرانس، جرمنی و دیگر ممالک نے کہا تھا کہ وہ ڈیڈلائن میں توسیع کے لیے اپنے شراکت داروں اور طالبان سے رابطے میں ہیں جبکہ امریکی صدر جو بائیڈن نے امید ظاہر کی تھی کہ 31 اگست تک انخلا کا آپریشن مکمل کرلیا جائے گا۔
یاد رہے کہ 15 اگست کو طالبان افغان دارالحکومت کابل میں بھی داخل ہوگئے تھے جس کے بعد ملک کا کنٹرول عملی طور پر ان کے پاس چلا گیا ہےاور افغان صدر اشرف غنی سمیت متعدد حکومتی عہدے دار فرار ہوچکے ہیں۔
طالبان کے کابل میں داخل ہونے کے بعد غیر ملکی اور افغان شہریوں کی بڑی تعداد ملک سے نکلنے کی خواہش میں کابل ائیرپورٹ پر موجود ہیں جبکہ ائیرپورٹ کا انتظام امریکی فوجیوں نے سنبھال رکھا ہے اور روزانہ درجنوں پروازیں شہریوں کو وہاں سے نکال رہی ہیں۔