|

وقتِ اشاعت :   August 31 – 2021

امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغانستان اور امریکا، طالبان امن معاہدے کے لیے مذاکرات کرنے والے زلمے خلیل زاد نے کہا کہ ہے اب طالبان کا امتحان ہے کہ کیا وہ اپنے ملک کو ایک محفوظ اور خوشحال مستقبل کی طرف لے جا سکتے ہیں جہاں ان کے تمام شہریوں، مرد خواتین کو اپنی صلاحیت تک پہنچنے کا موقع ملے۔انہوں نے کہا کہ کیا افغانستان اپنی متنوع ثقافتوں، تاریخ اور روایات کی خوبصورتی اور طاقت کو دنیا کے سامنے پیش کر سکتا ہے؟

گیارہ ستمبر 2001 کے حملے کے بعد امریکا کی جانب سے افغانستان میں شروع کی گئی جنگ 31 اگست کی رات اختتام پذیر ہوگئی جب آخری امریکی فوجی بھی افغانستان سے نکل گیا تاہم انخلا مکمل ہونے سے قبل ہی طالبان دارالحکومت کابل کا کنڑول سنبھال چکے تھے۔انخلا کی تکمیل پر زلمے خلیل زاد جو خود افغانستان کے شہر مزار شریف میں پیدا ہوئے، سلسلہ وار ٹوئٹس میں اپنے خیالات و جذبات کا اظہار کیا۔

ایک ٹوئٹ میں زلمے خلیل زاد کا کہنا تھا کہ اس طویل جنگ نے امریکیوں اور افغانوں کو کئی اچھے برے طریقے سے متاثر کیا۔

انہوں نے لکھا افغانستان کے مشہور بیٹے (جلال الدین) رومی نے کہا تھا کہ ’یہ آپ کا راستہ ہے، صرف آپ کا، دوسرے آپ کے ساتھ چل سکتے ہیں لیکن کوئی بھی آپ کے لیے نہیں چل سکتا‘۔

ان کا کہنا تھا کہ افغان اور امریکی اپنے اپنے راستے پر ساتھ ساتھ چلتے رہیں گے۔

زلمے خلیل زاد کا کہنا تھا کہ افغانستان میں ہماری جنگ اختتام پذیر ہوچکی ہے، ہمارے بہادر سپاہیوں، سیلرز، بحری اور فضائی افواج کے اہلکاروں نے امتیاز اور قربانی کے ساتھ آخری دم تک خدمات انجام دیں، ان کے لیے ہمارا شکریہ اور احترام ہے۔

امریکی نمائندے نے کہا کہ ہماری افواج اور ہمارے ساتھ کھڑے بہت سے شراکت داروں کے روانہ ہونے کے ساتھ افغانوں کے لیے فیصلے اور موقع کا وقت ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ان (افغانوں) کے ملک کا مستقبل ان کے ہاتھ میں ہے، وہ مکمل خودمختاری کےساتھ اپنا راستہ منتخب کریں گے اور یہ ان کی جنگ کو بھی ختم کرنے کا موقع ہے۔

خیال رہے کہ امریکا کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں افغانستان میں 2 دہائیوں سے جاری جنگ کے خاتمے کے لیے طالبان کے ساتھ مذاکرات کیے گئے تھے جس میں زلمے خلیل زاد نے امریکا کی نمائندگی کی تھی۔

مذاکرات کے نتیجے میں 29 فروری کو طالبان اور امریکا کے درمیان دوحہ میں ایک امن معاہدے پر دستخط کیے گئے تھے جس کی رو سے امریکی افواج کے انخلا کی تاریخ طے کی گئی تھی اور طالبان کو پابند کیا گیا تھا کہ وہ افغانستان کی سرزمین کسی کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے اور افغانستان میں قیام امن کے لیے حکومت سے مذاکرات کریں گے۔

بعدازاں امریکی انخلا کی تاریخ میں توسیع کردی گئی جبکہ کابل حکومت کے ساتھ طالبان کے مذاکرات کا سلسلہ بھی آگے نہ بڑھ سکا اور عسکریت پسندوں نے سرحدی اضلاع پر قبضے کے بعد برق رفتاری سے ملک کے اہم شہروں اور بعدازاں 15 اگست کو دارالحکومت کابل کا کنٹرول بھی سنبھال لیا۔