افغانستان کے صوبے پنجشیر میں طالبان اور قومی مزاحمتی فورس کے درمیان مذاکرات کی ناکامی کے بعد جھڑپیں جاری ہیں۔
وادی پنجشیر طالبان کے خلاف مزاحمت کا آخری گڑھ ہے اور اس کے علاوہ وہ تقریباً پورے افغانستان پر کنٹرول حاصل کرچکے ہیں۔
طالبان نے وادی پنجشیر کا محاصرہ کیا ہوا ہے اور اب مذاکرات کی ناکامی کے بعد جھڑپیں شروع ہوگئی ہیں۔
افغان میڈیا رپورٹس کے مطابق وادی پنجشیر کی دروازے پر جنگ جاری ہے۔ رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ صوبہ پنجشیر اور کپیسا کی سرحد پر گزشتہ رات سے اب تک جھڑپیں جاری ہیں اور دونوں جانب سے ایک دوسرے پر بھاری ہتھیار استعمال کیے جارہے ہیں۔
تاہم اس مقام پر ہونے والی جانی نقصان کی اطلاعات سامنے نہیں آسکی ہیں۔
دوسری جانب طالبان نے بھی قومی مزاحمتی فورس کی دفاعی لائن توڑنے کا دعویٰ کیا ہے۔ افغان میڈیا رپورٹس کے مطابق طالبان نے دعویٰ کیا ہے کہ مزاحمتی فورس کی پنجشیر کے شاتل ضلع میں قائم 6 چیک پوسٹوں پر قبضہ کرلیا ہے اور ساتھ ہی آگے کی جانب پیشقدمی جاری ہے۔
طالبان کی جانب سے مزاحمتی فورس کے جانی نقصان کا بھی دعویٰ کیا گیا ہے۔
اُدھر مزاحمتی فورس کی جانب سے بھی طالبان کو بھاری جانی نقصان پہنچانے کا دعویٰ کیا گیا ہے تاہم اب تک آزاد ذرائع سے اس کی تصدیق نہیں ہوسکی ہے۔
قبل ازیں طالبان مذاکراتی وفد کے رکن امیرخان متقی نے وادی پنجشیر کے شہریوں کیلئے ایک آڈیو پیغام جاری کیا ہے۔
پیغام میں کہا ہے کہ پنجشیرکا معاملہ حل کرنے کیلئے مذاکرات کیےگئے لیکن مذاکرات میں تاحال پیشرفت نہیں ہوسکی کیونکہ مزاحمتی محاذ کے افراد لڑنا چاہتے ہیں۔
امیرخان متقی کا کہنا تھا کہ طالبان پنجشیر معاملے کواب بھی پُرامن طریقے سے حل کرنا چاہتے ہیں اور وادی اب طالبان جنگجوؤں کے محاصرے میں ہے۔
خیال رہے کہ گزشتہ روز بھی قومی مزاحمتی فورس نے دعویٰ کیا تھاکہ جھڑپوں میں کم از کم 30 طالبان جنگجو مارے گئے اور 15 زخمی ہوئے۔
سابق جہادی کمانڈر احمد شاہ مسعود کے بیٹے احمد مسعود شاہ وادی پنجشیر میں مزاحتمی تحریک کی قیادت کررہے ہیں۔
گزشتہ دنوں بھی مزاحمتی فورس کے جنگجوؤں کی ٹریننگ کرتے ہوئے تصاویر منظرعام پر آئیں تھیں۔