عراق کے شمالی حصے میں وفاقی پولیس چوکی پر داعش کے مشتبہ حملے میں 13 پولیس اہلکار ہلاک ہوگئے ہیں۔ ایک سیکیورٹی اہلکار نے بتایا کہ شمالی عراق کے دیہی علاقے میں واقع ایک وفاقی پولیس چوکی پر مسلح افراد نے فائرنگ کی جس کے بعد جھڑپیں شروع ہو گئیں۔
انہوں نے حملے کی ذمہ داری دہشت گرد تنظیم داعش کو ٹھہرایا ہے اور بتایا کہ صوبہ کرکوک کے ستیہ گاؤں میں چیک پوسٹ پر ہفتے کی دیر رات ہونے والے حملے میں 5 پولیس اہلکار زخمی بھی ہوئے ہیں۔
اس ضمن میں سیکیورٹی اہلکار نے بتایا کہ عسکریت پسندوں کے ساتھ جھڑپ تقریبا ایک گھنٹے تک جاری رہی جس میں ان کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا ہے اور دہشت گردوں کے متعدد افراد زخمی ہوئے ہین۔
دریں اثنا پولیس ذرائع نے بتایا کہ حملہ آوروں کا شمالی شہر کرکوک سے 30 کلومیٹر جنوب مغرب میں قصبہ رشاد کے گاؤں میں تعینات پولیس کے ساتھ 2 گھنٹے تک جھڑپ جاری رہی۔
پولیس ذرائع نے بتایا کہ عسکریت پسندوں نے پولیس کی کمک کو چوکی تک پہنچنے سے روکنے کے لیے سڑک کے کنارے نصب بم استعمال کیے جس سے پولیس کی 3 گاڑیاں تباہ ہو گئیں۔
دوسری جانب داعش نے فوری طور پر اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی، شمالی عراق داعش کی سرگرمیوں کے لیے ہاٹ سپاٹ سمجھا جاتا ہے کیونکہ 2017 میں عراقی سیکیورٹی فورسز نے امریکی زیر قیادت اتحاد کی مدد سے دہشت گردوں کو شکست دی تھی۔
حالیہ برسوں میں داعش کے حملوں میں کمی آئی ہے لیکن ان علاقوں میں تاحال ان کے حملے جاری ہے۔
اس سے قبل جولائی میں عراق کے وزیر اعظم مصطفیٰ الکاظمی نے کہا تھا کہ ان کے ملک کو دہشت گرد تنظیم داعش سے مقابلہ کرنے کے لیے جنگ میں لڑنے والے امریکی فوجیوں کی اب کوئی ضرورت نہیں رہی۔
شام، عراق میں امریکی افواج پر راکٹ اور ڈرون حملےعراقی وزیر اعظم نے امریکی جنگی فوجیوں کے انخلا سے متعلق حتمی تاریخ کا اعلان نہیں کیا لیکن کہا تھا کہ عراقی سرزمین پر کسی بھی غیر ملکی جنگی فوج کی ضرورت نہیں ہے۔
اس وقت عراق میں ڈھائی ہزار امریکی فوجی موجود ہیں گزشتہ برس کے اواخر میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 3 ہزار فوجیوں کی کمی کا حکم دیا تھا۔
2014 میں داعش کی جانب سے شمالی عراق اور شام کے بڑے حصے پر قبضے کے بعد امریکا کی قیادت میں غیر ملکی افواج کے اتحاد نے عراقی فورسز کو تربیت اور فضائی تعاون فراہم کیا۔
داعش نے عراق کے متعدد علاقوں میں اپنا کنٹرول ظاہر کیا تھا۔