ترک حکام کی جانب سے امریکا میں مقیم ترک عالم دین سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے خلاف گرفتاریاں دوبارہ شروع کی گئیں ہیں۔ترک حکام نے 41 صوبوں میں 214 فوجیوں کو فتح اللہ گولن سے تعلق کے الزام میں گرفتار کیا ہے، تفتیش کےمطابق انقرہ جو گولن تحریک کو ’دہشت گرد تنظیم‘ کا خفیہ ڈھانچہ قرار دیتا ہے کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں۔
حکام نے 44 فوجیوں کو گرفتار کیا اور 145 دیگر کو بغاوت کی کوشش کے بعد برطرف کر دیا گیا۔
گرفتار ہونے والوں میں ایک کرنل اور لیفٹیننٹ کرنل سمیت 7 کپتان، سات لیفٹیننٹ کرنل 7 لیفٹیننٹ 41 نان کمیشنڈ افسران اور 5 افسر شامل ہیں۔واضح رہے کہ ترکی میں 2016 میں حکومت کے خلاف بغاوت کی ناکام کوشش کی گئی تھی۔
ترک حکومت 15 جولائی 2016 کو ہونے والی بغاوت کے بعد سے اب تک فتح اللہ گولن تحریک سے تعلق کے شبہے میں ڈیڑھ لاکھ سے زائد فوجی اور سرکاری ملازمین کو نوکریوں سے برطرف کر چکی ہے، جب کہ 77 ہزار افراد گرفتار ہیں اور مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔
ناکام بغاوت میں ملوث ملزمان کی نشان دہی اور ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا سلسلہ 4 سال بعد بھی جاری ہے جسے انسانی حقوق کے بین الاقوامی ادارے اور ترک حزبِ اختلاف حکومت کی انتقامی کارروائی قرار دیتے ہیں۔
ترک حکومت کا مؤقف ہے کہ فتح اللہ گولن اور ان کی تحریک سے متعلق افراد دہشت گرد اور ترکی کی قومی سلامتی کے لیے ایک خطرہ ہیں جن سے نمٹنے کے لیے ایسی ہی سخت کارروائی کی ضرورت ہے۔