انتخابی عمل میں دھاندلی اور فراڈ کے الزامات کے باوجود روسی صدر ولادی میر پیوٹن کی جماعت ہی ملک میں ہونے والے حالیہ انتخابات میں کامیاب ہوگی۔روسی حکومت کے ناقدین کو اس الیکشن میں شامل ہونے کی اجازت نہیں تھی اور کئی علاقوں سے بیلٹ بھرنے اور جبری ووٹنگ کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ تاہم ملک کے الیکشن کمیشن نے ان الزامات کو مسترد کیا ہے۔کمیشن کی جانب سے جاری کردہ ابتدائی نتائج کے مطابق اب تک 64 فیصد ووٹوں کی گنتی مکمل ہو چکی ہے۔
ان ابتدائی نتائج کے مطابق پیوٹن کی ‘متحدہ روس’ نے تقریباً 48 فیصد جبکہ کمیونسٹ پارٹی نے 21 فیصد ووٹ حاصل کیے ہیں۔
حکمران جماعت نے اتوار کو ووٹنگ کے اختتام کے کچھ دیر بعد ہی فتح کہ اعلان کر دیا تھا۔ سرکاری ٹی وی پر متحدہ روس پارٹی کے رہنما اینڈرے ترچاک نے ماسکو میں اپنے حامیوں کو ایک ‘صاف شفاف’ جیت پر مبارک باد دی تھی۔
اس انتخاب میں کئی شہروں میں الیکٹرونک ووٹنگ مشین بھی متعارف کرائی گئی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق متعدد حـزب اختلاف کے رہنماؤں اور سماجی کارکنوں کو ووٹ ڈالنے سے روکا گیا ، ان میں سر فہرست جیل میں اپوزیشن لیڈر الیکسی ناوالنی کے حمایتی شامل ہیں۔
تاہم روس کی وزارت داخلہ کے حکام نے صحافیوں کو بتایا کہ انھیں کوئی قابل ذکر خلاف ورزیوں کی شکایات نہیں موصول ہوئی ہیں۔ جس دن روس کے شہریوں نے ووٹ کاسٹ کرنے شروع کیے تھے اس دن سے جیل میں قید روسی حزب مخالف کے رہنما الیکسی نوالنی کی وضع کردہ سمارٹ ووٹنگ ایپ کو ایپل اور گوگل سٹورز سے ہٹا دیا گیا تھا۔روسی حکام نے دونوں کمپنیوں کو دھمکی دی تھی کہ اگر انھوں نے ایپ کو ہٹانے سے انکار کیا تو انھیں بھاری جرمانے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس ایپ میں لوگوں کو بتایا گیا تھا کہ وہ حکمران جماعت کے امیدواروں کو شکست سے دوچار کر سکتے ہیں۔
غیر حتمی نتائج کے مطابق صدر پیوٹن کی جماعت نے باآسانی اکثریت حاصل تو کر لی تاہم اس کی مقبولیت میں واضح کمی آئی ہے۔ یاد رہے کہ 2016 میں ہونے والے انتخابات میں حکمران جماعت 54 فیصد ووٹ لے کر اقتدار میں رہی تھی۔
الیکسی ناوالنی جیسے ناقدین کی جانب سے صدر کے رہن سہن پر تنقید اور کرپشن کے الزامات بھی حکمران جماعت کی مقبولیت پر اثر انداز ہوئے ہیں۔