20 اکتوبر کو افغانستان کی صورتحال سے متعلق ہونے والے مذکرات میں افغان طالبان کو بھی ماسکو مدعو کیا جائے گا۔مذاکرات میں افغانستان پر طالبان کے کنٹرول کے بعد بدلتے حالات اور انسانی بحران پر قابو پانے کے حوالے سے بات چیت کی جائے گی۔
روس کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان ضمیر کابلوف نے اجلاس کے بارے میں زیادہ تفصیلات فراہم نہیں کی ہیں، لیکن روس نے ابھی تک طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے۔
یہ مذاکرات بارہ اکتوبر کو افغانستان کے حوالے سے ہونے والی جی ٹوئٹی سمٹ کے بعد ہوں گے۔
ماسکو نے اس سے پہلے مارچ میں افغانستان کی صورتحال پر بین الاقوامی کانفرنس کی میزبانی کی تھی جس میں روس، امریکہ ، چین اور پاکستان نے شرکت کر کے ایک مشترکہ بیان جاری کیا تھا۔
جس میں دونوں طرف کے فریقین پر زور دیا گیا تھا کہ وہ امن معاہدے پر پہنچیں اور تشدد کو روکیں۔
طالبان کے کنٹرول کے تناظر میں ماسکو نے تاجکستان میں فوجی مشقیں کیں اور وہاں اپنے فوجی اڈے پر اپنے ہارڈ ویئر کو مضبوط کیا۔
روسی صدر نے پیوٹن نے تاجک صدر امام علی رحمان کے ساتھ بھی رابطہ کیا جس میں دونوں رہنماؤں نے افغانستان کی تازہ ترین پیش رفت سے متعلق سیکیورٹی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔
مغربی ممالک کے برعکس جنہوں نے طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد اپنے سفارتکاروں کو فوری طور پر افغانستان سے واپس بلا لیا تھا، روس نےکابل میں اپنا سفارتخانہ کھلا رکھا۔