دبئی: قطر کے وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ افغانستان اور اس کے نئے طالبان حکمرانوں کو تنہا کرنا کوئی جواب یا دلیل نہیں بلکہ سابق باغیوں سے رابطہ کرنے سے اُن میں موجود اعتدال پسند آوازوں کو تقویت ملے گی۔ شیخ محمد بن عبدالرحمٰن الثانی نے قطر میں ہونے والی سفارتی اجلاس کے دوران یہ بات کہی جہاں طالبان نے برسوں سے سیاسی دفتر قائم کر رکھا ہے۔
دنیا یہ دیکھ رہی ہے کہ دو دہائیوں کی شورش اور جنگ کے بعد طالبان حکمرانی کی جانب کیسے منتقل ہوئے ہیں جب انہوں نے امریکی اور نیٹو افواج کے انخلا کے بعد ملک کا کنٹرول سنبھالا۔
رواں ہفتے امریکا، 10 یورپی اقوام اور یورپی یونین کے نمائندوں نے دوحہ میں طالبان رہنماؤں کے ساتھ بات چیت کی۔قطری وزیر خارجہ نے دوحہ میں انسداد دہشت گردی اسپیشلسٹ کے حاضرین کو بتایا کہ قطر سمجھتا ہے کہ بین الاقوامی برادری کو طالبان پر درست اقدامات کے لیے زور دینا چاہیے اور ان کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے بجائے اس کے کہ صرف منفی اقدامات پر ان کو سزا دینے کی بات کی جائے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ انہیں رہنمائی فراہم کرنا بہت اہم ہے، یہ ترقی اور آگے بڑھنے کی ترغیب دے گی، یہ اعتدال پسند طاقت (آوازوں) کو اپنی حکومت میں زیادہ بااثر اور زیادہ مؤثر ہونے کی ترغیب دینے میں مدد دے گی۔
امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ترجمان نیڈ پرائس نے ایک بیان میں کہا تھا کہ امریکا نے طالبان کے ساتھ مذاکرات میں واضح کردیا ہے کہ گروپ کو دہشت گردی سے لڑنے اور انسانی حقوق کی حفاظت کے لیے ان کے اقدامات سے پرکھا جائے گا۔صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہم نے حالیہ ہفتوں کی طرح عملیت پسندی اور حقیقت پسندی کی بنیاد پر طالبان سے رابطہ کیا جس میں سیکیورٹی اور دہشت گردی سے متعلق خدشات پر توجہ مرکوز تھی۔
طالبان اور امریکا دونوں کو افغانستان میں داعش کی موجودگی پر تشویش ہے لیکن طالبان نے داعش کے خلاف لڑائی میں امریکا کے ساتھ تعاون کو خارج از مکان قرار دیا تھا۔
دوسری جانب زیادہ تر غیر ملکی امداد پر انحصار کرنے والے افغانستان کو شدید غربت کا سامنا ہے، اس کا مالیاتی نظام تباہ ہورہا ہے اور لاکھوں افراد کو بھوک کا سامنا ہے۔
طالبان کو اساتذہ، ڈاکٹروں اور تقریباً 5 لاکھ سول سرونٹس کو تنخواہوں کی ادائیگی میں مشکلات در پیش ہیں، ملک میں اشیائے خورو نوش کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں اور ادویات کی درآمد مشکل ہوگئی ہے کیوں کہ یہ عالمی مالیاتی نظام سے بلاک ہے۔
عبدالرحمٰن الثانی نے دوحہ میں گلوبل سیکیورٹی فورم میں کہا کہ تنہائی کبھی بھی جواب نہیں ہوگا، جو بھی افغانستان پر حکومت کر رہا ہے اس کے ساتھ رابطہ ضروری ہے کیونکہ افغانستان کو چھوڑ دینا ایک بڑی غلطی ہوگی۔