کوئٹہ : بلوچستان عوامی پارٹی کے قائم مقام صدر میرظہوراحمدبلیدی نے کہاہے کہ وزیراعلیٰ جام کمال کاوطیرہ تھاکہ نہ خود کام کرینگے نہ دوسروں کوکرنے دینگے۔
سات گھنٹے میٹنگز کے باوجود کوئی آئوٹ فٹ نہیں تھا ،اتحادی جماعتیں پی ٹی آئی ،اے این پی ،ایچ ڈی پی ،جمہوری وطن پارٹی کااتحاد فردواحد جام کمال کے ساتھ نہیں بلکہ بی اے پی کے ساتھ ہے وہ اپنی حمایت پرنظرثانی کرے۔
صوبے میں خراب گورننس کی ذمہ داری جام کمال پر عائد ہوتی ہے ،اپنے حق کیلئے آواز اٹھانے والوں پر ڈنڈے برسائے جاتے تھے ،بلوچستان کامسئلہ سیاسی ہے لیکن جام کمال ایک منیجر بن کر بیوروکریٹک انداز میں معاملات آگے بڑھارہے تھے جس سے مسائل میں کمی کی بجائے اضافہ ہوگیا۔
میرظہوراحمدبلیدی نے کہاکہ بلوچستان اسمبلی میں65ارکان ہے جام کمال کواتحادیوں کوملا کر24ممبران کی حمایت حاصل ہے بلوچستان عوامی پارٹی کے 12ارکان ناراض ہے جبکہ ناراض اتحادیوں کی تعداد3 ہے کل 15ارکان ناراض ہے ۔
جب وزیراعلیٰ عددی اعتبار سے اکثریت کھودے توانہیں مزید منصب پر جمے رہنامشکل ہوجاتاہے جام کمال اس وقت اخلاقی جواز کھوچکے ہیں ہم نے انہیں کہاکہ آپ عددی اکثریت کھوچکے اس لئے باعزت طورپر استعفیٰ دیں لیکن انہوں نے ہماری بات ہوا میں اڑا دی جب حکومت کے خلاف ایک تحریک آرہی ہے اوراپوزیشن جنہیں جیلوں میں بند کیاگیا۔
ان پربکتربند گاڑیاں چڑھائی گئی اور بلوچستان اسمبلی کو دنیا بھر میں ایک تماشا بنادیاگیا ایسی صورتحال میں اپوزیشن جام کمال کے خلاف ہی جائے گی اس حوالے سے 40لوگ جام کمال کے خلاف ہے۔
انہوں نے کہاکہ اپوزیشن سے ہم نے بھی بات کی ہے جام کمال بھی ان کے پاس گئے ہیں جام کمال نے مولاناحیدری اور بی این پی مینگل سے ملاقاتیں کی ہیں سیاست میں رابطے ہوتے رہتے ہیں ہمارامقصد ہے کہ بلوچستان میں خراب طرز حکمرانی جس کی ذمہ دار جام کمال ہے انہیں مائنس کرے پھر اتحادیوں کے ساتھ مل کر بہترحکومت تشکیل دیں گے ۔
انہوں نے کہاکہ صوبائی اسمبلی میں موجود سیاسی جماعتوں سے رابطے کئے ہیں ،کل ہم نے کہاتھاکہ اگر وزیراعظم ثالثی کاکرداراداکرنا چاہے تو وہ کرے پی ٹی آئی بلوچستان اور مرکز دونوں میں بی اے پی کے اتحادی ہے اس لئے ان کاکردار بنتاہے اگر وہ معاملے کوافہام وتفہیم کے ساتھ حل کرناچاہیے اور جام کمال کوکہے کہ اتحادی جماعتوں اور بی اے پی جوآپ کے خلاف بارے مشورہ دے سکتے ہیں ہم نے ایک جمہوری عمل اختیارکیاہواہے ۔
انہوں نے کہاکہ جام کمال کاایک وطیرہ نہ خود کام کرتے ہیں نہ دوسروں کوکام کرنے دیتے ہیں ان کی گورننس بلوچستان میں بڑا مشہور کہ 7،سات میٹنگز ہوتی ہے لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکلتا جب سے حکومت بنی ہے کوئی نہ کوئی نالاں رہاہے پاکستان تحریک انصاف کے پارلیمانی لیڈر سرداریارمحمدرند نے بھی نالاں ہوکر استعفیٰ دیاتھا اس کے علاوہ بی اے پی میں بھی آوازیں اٹھتی رہی ہے جب لوگوں نے دیکھاکہ جام کمال سے عوام کااعتماد اٹھ چکاہے عوام انہیں مزید اقتدار پر نہیں رہناچاہتی۔
بدقسمتی سے بلوچستان میں حالیہ تین سالوں میں جب بھی کوئی اپنے حق کیلئے آواز اٹھاتے ہیں چاہے وہ ڈاکٹرز،طلباء ہو ان پر ڈنڈے برسائے جاتے ہیں ہم سیاسی کارکن ہے ہمیں اپنے حلقوں میں جاناپرتاہے اور اس خراب طرز حکمرانی کے اثرات ہمارے حلقوں پر مرتب ہونگے لوگ پوچھیں گے کہ آپ حکومت میں تھے مسائل حل کرنے کی بجائے آپ نے ہمیں ڈنڈے مارے ہم نے مجبوری میں انتہائی اقدام اٹھایاہے ہم بلوچستان اسمبلی کے نہ صرف ممبرز ہے بلکہ صوبے کے بڑے حصے کی ترجمانی کررہے ہیں جب عوام کااعتماد اٹھ جائے تو پھر اخلاقی جواز باقی نہیں رہتا کہ کوئی کرسی پر براجمان رہے۔
انہوں نے کہاکہ بلوچستان کامسئلہ سیاسی ہے لیکن جب سیاست سے ہٹ کربیورکریٹک انداز میں ایک منیجربن کر معاملات کوآگے بڑھائیںگے تو حکومت نہیں چلے گی اور مسائل جنم لیںگے تو انہی مسائل کی وجہ سے تحریک عدم اعتماد سامنے آیاہے تحریک عدم اعتماد ناکام نہیں ہوگی 15ارکان ناراض جبکہ 24اپوزیشن کے ساتھ ہے ہم تمام اتحادیوں کے پاس جائیںگے ،پی ٹی آئی ،اے این پی ،ایچ ڈی پی ،جمہوری وطن پارٹی کااتحاد جام کمال کے ساتھ نہیں بلکہ بی اے پی کے ساتھ ہے انہیں اپنی حمایت پر نظرثانی کرناچاہیے۔