کوئٹہ : چیف آف سراوان وسابق وزیراعلیٰ بلوچستان نواب محمداسلم رئیسانی نے کہاہے کہ ملٹری ہو یاسول بیوروکریسی پاکستان میں ہمیشہ بیوروکریسی نے غبن کیاہے ،آئین میں تعین کردہ آئینی مدت کسی بھی وزیراعلیٰ یا وزیراعظم کا آئینی حق ہے لیکن دھاندلی زدہ حکومت کاحق نہیں بنتا کیونکہ اس وقت پورا پاکستان چیخ رہاہے کہ موجودہ حکومت دھاندلی زدہ ہے،جام کمال سے باہر کا کوئی شخص استعفیٰ نہیں مانگ رہا بلکہ ان کے اپنے لوگ استعفیٰ مانگ رہے ہیں جو کل تک ان کا قاعدہ پڑھ رہے تھے ،پاکستان میں ہمیشہ جمہوریت کوپنپنے نہیں دیاگیاہے۔
بلکہ جمہوری اداروں کو بھی تباہ کرنے کی کوشش کی گئی ،بلوچ،پشتون ،سندھی ،سرائیکی ،پنجابی ،کشمیری سمیت ہر کوئی فیڈریشن سے ناراض ہے ۔ان خیالات کااظہار انہوں نے اپنے ایک انٹرویو میں کیا۔نواب اسلم رئیسانی نے کہاکہ آئین میں تعین کردہ آئینی مدت کسی بھی وزیراعلیٰ یا وزیراعظم کا آئینی حق ہے لیکن دھاندلی زدہ حکومت کاحق نہیں بنتا کیونکہ اس وقت پورا پاکستان چیخ رہاہے کہ موجودہ حکومت دھاندلی زدہ ہے جبکہ جام کمال کامعاملہ تو یوں ہے کہ ان سے کوئی باہر کا بندہ استعفیٰ نہیں مانگ رہا بلکہ ان کے اپنے ساتھی اور سپورٹرز مانگ رہے ہیں شاید ان کے درمیان ختلافات ہوں یا پھر لین دین کاجھگڑاہوگا تاہم جام کمال اور اس کے مخلوط اتحادی بہتر جانتے ہیں ان کے آپس میں کیا اختلافات ہے سیاسی اختلافات نہیں لگتے کیونکہ میں انہیں سیاسی سمجھتاہی نہیں انہوں نے کہاکہ ایک دوسرے کے ساتھ پیار اچھی بات ہے لیکن حد سے زیادہ پیار کا نتیجہ یہ ہوا گزشتہ دنوں اسمبلی میں صحافیوں نے سوال کیاتومیں نے جواب دیاتھاکہ جو لوگ جام کمال کوقائد قائد کہتے تھے آج انہی لوگوں نے جام کا قاعدہ پھاڑ دیاہے جو جام نے انہیں پڑھایاتھا یا سیکھایاتھا وہ قاعدہ پھاڑ کر پھینک دیاگیاہے۔
انہوں نے کہاکہ ہم نے بھی حکومت چلائی ہے اگر میں کہوں کہ میں نے یہ تیر مارا یا وہ تیر مارا اس بارے عوام سے پوچھنا چاہیے کہ کونسی حکومت بہتر تھی حکومتی معاملات کی بہترکمپیئرزن عوام کرسکتے ہیں 73یا74سالوں سے یہاں جمود کا سباہے پورے ملک میں اسٹیبلشمنٹ کی حکمرانی یا پھر ان کی زیر اثر حکومتیں رہی ہے ،سول بیوروکریسی یا ملٹری بیوروکریسی ہوں پاکستان کوہمیشہ بیوروکریسی نے ہی غبن کیاہے ایک سیاسی سوچ،سیاسی شخصیت کا سوچ اور ایک تنخواہ دار شخص کے دومختلف سوچ ہوتے ہیں ،تنخواہ دار چاہے جس بھی محکمے میں ہوں وہ زندگی بنانے کیلئے کماتے ہیں ایک شخص سیاست کرتاہے وہ آبائواجداد سے سیاست کرتاہوگا انسانی طرز کو دیکھنا ہوگاکہ ان کی عوامی مسائل پر ردعمل کیسے ہوتاہے کس کی سوچ زیادہ وسیع ہے ۔
انہوں نے کہاکہ میری ذاتی رائے ہے کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کوکسی صورت قبول نہیں کرونگا ،بیلٹ پیپرز کورکھاجائے میری شنید میں آرہاہے کہ اسٹیبلشمنٹ یا وقت کا حاکم ضلع ،ڈویژنل سطح پر نئے نئے گروپس بنائیںگے مثال کے طورپر انجمن اتحاد کواری روڈ انجمن اتحاد سلطان چوک میراتجزیہ یاجو سنتاہوں چھوٹے چھوٹے گروپس بنا کر ان کے ذریعے الیکشن کرواکر جو جیت گیا پھر انہیں لاکر کسی جماعت میں شمولیت کااعلان کروائینگے ،سناہے ایک اور نئی جماعت بنایاجارہاہے یہاں ہمیشہ کوشش کی جاتی ہے کہ جمہوریت کوپنپنے نہ دیاجائے بلکہ تباہ ہوجائے ،جمہوری ادارے تباہ ہوجائیں اور ہماراکام بنیں ۔ایسی جماعتیں بھی صرف اچھے ڈیل کودیکھتی ہے ۔انہوں نے کہاکہ ریاست پاکستان ایک فیڈریشن میں دیکھیں کہ کیا پشتون ،بلوچ ،سندھی ،سرائیکی ،کشمیری یا پنجابی فیڈریشن میں خوش ہے یا نہیں وہ خوش نہیں ہے عام پنجابی سے پوچھاجائے وہ ریاست سے خوش نہیں ،گلگت بلتستان یا کشمیریوں سے پوچھیں وہ خوش نہیں ہے۔
یہاں بات کرنے کی اجازت نہیں ہے اگر آپ بات کرینگے تو آپ کے خلاف ایف آئی آر درج ہوگی اور تھانے لے جائینگے اور آپ کو شمالی علاقہ جات کی سیرکرایاجائے گا۔یہاں ترقیاتی عمل جمود کاشکار ہے جو بہت سست ہے ۔انہوں نے کہاکہ ہم بلوچ کبھی ہندوستان کا حصہ نہیں رہے ہم ریاست قلات ایک آزاد ریاست رہاہے خان 1947ء تک 1948ء یہ ریاست آزاد رہی ،روس عربیہ سمندر تک رسائی چاہتے تھے اس کی روک تھام کیلئے یہاں چونکہ ہمارا زیادہ تعلق ویسٹ منسٹری کے ساتھ زیادہ تھا دہلی کے ساتھ کم تھا یہاں برطانیہ کاایک پولٹیکل ایجنٹ ہواکرتاتھا ان کے مشورے سے خان صاحب نے دو نکات کامعاہدہ کیا کرنسی اور خارجہ پالیسی فیڈرل کے ساتھ رہے گی اب محمدعلی جناح کی برسی ،سالگرہ یا اقوال زریں اور تصاویر ہر جگہ ہیں لیکن ان کے دستخط کو عزت نہیں دی جارہی ہے ایسا لگتاہے کہ یہ سالگرہ وغیرہ سب کچھ ایک ڈرامے کی مانند ہے ۔