|

وقتِ اشاعت :   November 24 – 2021

ملک کے اندر بڑے بحرانات کا ملبہ ہر وقت عوام پر ہی گِرا ہے ستر سال سے زائد عرصے کے دوران عوام نے بہت سی مصیبتیں جھیلیں ہیں ، ملک کو جب بھی چیلنجز کا سامنا ہوا تو عوام اس میں پیش پیش رہی، شاید ہی کوئی ایسا موڑ ہو جہاں عوام ریاست کے ساتھ کھڑی دکھائی نہ دیتی ہو۔ آج بھی ملک شدید بحرانات کا شکار ہے تو عوام اس بحرانی کیفیت کو بھی برداشت کررہی ہے بڑے پیمانے پرلوگوں پر مالی بوجھ ڈال دیا گیا ہے۔

باوجود اس کے کہ عوام کو ان کے جائز حقوق نہیں دیئے گئے، ملازمتوں سے لیکر بنیادی سہولیات تک عوام کو آج تک میسر نہیں۔سرکاری اسپتالوں میں علاج نہ ہونے کی وجہ سے عوام پرائیویٹ اسپتالوں میں اپنا علاج کراتے ہیں، سرکاری تعلیمی اداروں کا معیار بہتر نہ ہونے اور سہولیات کے فقدان کی وجہ سے پچاسی فیصد عوام اپنے بچوں کو پرائیویٹ تعلیمی اداروں میںپڑھارہے ہیں، پانی، گیس، بجلی کے بل دینے کے باوجود بھی انہیں یہ تمام چیزیں مستقل بنیادوں پر میسر نہیں ۔ملک میں سب سے زیادہ ٹیکس عوام دیتی ہے جبکہ سیاستدان اور بڑی شخصیات کا ٹیکس ریکارڈ انتہائی خراب ہے، ٹیکس گوشواروں میں جو تفصیلات دی جاتی ہیں اسے دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ شایان شان طریقے سے زندگی گزارنے والوں کی جائیدادیں اور آمدن کتنی کم ہے اور ان میں بیشتر سیاستدان ہی ہیں۔

بدقسمتی سے اس ملک کا دیوالیہ کرنے میں سیاستدانوں کا اہم کردار رہا ہے، اگر آج اداروں میں تکرار کا ماحول دیکھنے کو مل رہا ہے تو اس کی وجہ بھی سیاسی مفادات ہی ہیں اگر اول روز سے گروہی اور ذاتی مفادات کو ترجیح نہ دیتے ہوئے عوامی مفادعامہ کیلئے کام کیاجاتا تو آج ملک دیوالیہ نہ ہوتا اس لیے آج اگر کسی کو جوابداہ ہوناچاہئے تو ان سیاستدان اور شخصیات کو جنہوں نے ملکی نظام کے ساتھ کھیلواڑ کیا ۔ عوام آج بھی تمام تر سہولیات سے محروم رہنے کے باوجود ٹیکس دے رہے ہیں ۔ گزشتہ روز وزیر اعظم عمران خان نے اسلام آباد ایف بی آر کے ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ماضی میں ہمارے ملک میں کوئی ٹیکس کلچر ہی نہیں بنا۔ ایف بی آر کو ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم پر خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم ٹیکنالوجی کی طرف بہت بڑا قدم ہے۔

انہوں نے کہا کہ ماضی کی حکومتوں میں لوگ ٹیکس چوری کرنا نیک کام سمجھتے تھے جبکہ دیگر ممالک میں لوگ ملک چلانے کے لیے ٹیکس دیتے ہیں۔ ملک میں ٹیکس کلچر لانا بہت ضروری ہے۔ ملک پر 6 ٹریلین کا قرضہ تھا جو 10 سال میں 30 ٹریلین ہو گیا تھا۔ قرض لینے والوں کو سزا ہونی چاہیے کیونکہ اتنے قرض لینے کے بعد بھی ملک میں کوئی ڈیم نہیں بنا۔ ہمارے پاس ملک چلانے کے لیے ہی پیسے نہیں تھے اس لیے ہمیں مجبوراً قرض لینا پڑا۔انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک میں حکمران اشرافیہ نے ہی ٹیکس کلچر نہیں بننے دیا اور ماضی کے حکمرانوں نے بیرون ملک دوروں پر بہت زیادہ رقم خرچ کی۔عمران خان نے کہا کہ امریکی صدر بیرون ملک جاتا ہے تو سفارتخانے میں ٹھہرتا ہے لیکن ہمارے ملک کے وزیر اعظم باہر جاتے تھے تو بڑے بڑے ہوٹلوں میں رہائش کرتے تھے۔وزیراعظم عمران خان کی بات سوفیصد درست ہے مگر کیا آج یہ سب کچھ نہیں ہورہا ، جو حکومت کا حصہ ہیں ان کا ماضی گزشتہ حکومتوں کی وفاداری میں گزرا ہے ،ٹیکس نادہندگان میں بڑا طبقہ ہی سیاستدانوں کا ہے اور آج بھی صورتحال ماضی سے مختلف نہیں ہے اس لیے ٹیکس کی گرفت میں پہلے بڑے اشرافیہ کو لاناہوگا عوام کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ چکی ہے کیونکہ عوام مہنگائی کی صورت میں پہلے سے ہی ہر چیز پر ٹیکس دے رہی ہے لہٰذا نظام کو اوپر سے بہتر کرنے کی ضرورت ہے تب جاکر ملکی نظام بہتر ہوسکتا ہے۔