|

وقتِ اشاعت :   December 16 – 2021

جنگ زدہ افغانستان خبروں سے اوجھل نہیں ہورہا ، طویل جنگ کے بعد امریکی اور نیٹو افواج کی انخلاء کے بعد اس امر پر بعض سیاسی جماعتوں نے شدید تحفظات کااظہار کیا تھا کہ اچانک عالمی افواج کی انخلاء نئے بحرانات اور چیلنجز کا باعث بن سکتی ہے مگر بعض حلقوں کی جانب سے اس عمل کو سراہا گیا اور یہ بتایاگیاکہ افغانستان سے عالمی افواج شکست خوردہ اور بغیر کچھ حاصل کئے واپس چلی گئیں اور سوویت یونین کے دور کی مثالیں دی گئیں۔

بہرحال عالمی افواج جب تک افغانستان میں تھیں یقینا وہاں معاشی حوالے سے تمام تر امداد امریکہ اور دیگر عالمی قوتیں فراہم کررہی تھیں جیسے ہی انخلاء شروع کی گئی تو افغانستان پر ماضی کی پابندیاں عائد کردی گئیں۔ معاشی پابندیوں اورامداد کی رقم روکنے کے بعد انسانی بحرانات جنم لینے کے حوالے سے عالمی اداروں نے خدشات کا اظہار کیا ہے کہ افغانستان کو مالی امداد فراہم نہ کی گئی تو جنگی ماحول سے بھی بڑا انسانی بحران بھوک وافلاس کی وجہ سے پیدا ہوسکتا ہے۔ دوسری جانب امریکی حکومت نے افغانستان کے منجمد اثاثے فوری طور پر بحال نہ کرنے کا حتمی فیصلہ کیا ہے۔وائٹ ہاؤس کی ترجمان جین ساکی نے میڈیا بریفنگ میں بتایا کہ افغانستان کے قومی بینک کے 10 ارب ڈالرز مالیت کے اثاثے منجمد ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ جوبائیڈن انتظامیہ انہیں فوری طور پر بحال کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں رکھتی کیونکہ نائن الیون کیس ابھی زیر سماعت ہے جس کے بعد ہی کوئی فیصلہ کیا جاسکتا ہے۔جین ساکی کی بات سے یہ اشارہ ملا کہ نائن الیون کے متاثرہ خاندانوں کی جانب سے دائر کیس کے فیصلے کے بعد ہی امریکی حکومت افغانستان کے اثاثوں کی بحالی کے حوالے سے فیصلہ کرے گی۔وائٹ ہاؤس کی ترجمان نے ایک صحافی کے سوال پر جواب دیا کہ افغان بینک کے منجمد اثاثوں کی بحالی کے حوالے سے وقت کا تعین نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اس میں ایک سال یا اُس سے زیادہ وقت بھی لگ سکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ عدالتی فیصلے کی روشنی میں ہی جوبائیڈن انتظامیہ کوئی فیصلے کر سکے گی کیونکہ ہم نائن الیون کے متاثرہ خاندانوں کو بھی جواب دہ ہیں۔دوسری جانب وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ خدشہ ہے لاکھوں افغان بچے اور بڑے بھوک اور سردی سے مر جائیں گے۔ دنیا کو فوری مداخلت کرنا ہوگی۔وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ افغانستان میں انسانی بحران سنگین ہو رہا ہے۔ پچانوے فیصد شہریوں کے پاس کھانے کو کچھ نہیں۔ پورا خطہ سردی کی لپیٹ میں آ رہا ہے۔

بارشیں نہ ہونے سے قحط کی صورت حال ہے۔ان کا کہنا ہے کہ دنیا نے فوری توجہ نہ دی تو خدشہ ہے لاکھوں افغان بچے اور بڑے بھوک اور سردی سے مر جائیں گے۔ ہم اپنی ذمہ داری نبھا رہے ہیں لیکن پاکستان تنہا یہ ذمہ داری نہیں اٹھا سکتا۔ دنیا کو فوری مداخلت کرنا ہو گی۔ان کا کہنا ہے کہ 19 دسمبر کو اسلام آباد میں او آئی سی وزرائے خارجہ کونسل کا اجلاس منعقد کیا جا رہا ہے۔اس اجلاس کا واحد ایجنڈا افغانستان کی صورتحال ہو گا۔ دنیا کو باور کروانا چاہتا ہوں کہ اگر افغانستان کی صورتحال پر سنجیدگی کا مظاہرہ نہ کیا گیا تو افغانستان میں ابھرتا ہوا انسانی بحران سنگین صورت اختیار کر سکتا ہے۔آج اقوام متحدہ،ورلڈ بینک،آئی ایم ایف، ہماری بات دہرارہے ہیں۔وہ کہہ رہے ہیں کہ اگر افغانستان پر لگی پابندیوں پر نظرثانی نہ کی گئی اور افغانوں کو فی الفور امداد بہم نہ پہنچائی گئی تو بہت بڑا بحران سامنے آ سکتا ہے۔تمام تر صورتحال اور نقشہ افغانستان کا سامنے ہے اور اس سے یہ منظر نکلتا ہے کہ افغانستان کی فوری مالی مدد نہ کی گئی تو انسانی بحران پیدا ہوجائے گا۔ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امریکہ سمیت عالمی دنیا کو سوچنا ضرور چاہئے تاکہ افغان عوام ایک اور مصیبت سے دوچار نہ ہوجائیں۔