|

وقتِ اشاعت :   December 20 – 2021

گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان نے ایک بار پھر بھٹو اور شریف فیملی کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے ان پر بھرپور تنقید کی کہ ملک میں جو معاشی بدحالی اور بحرانات ہیں یہی دو خاندان اس کے ذمہ دار ہیں۔ وزیراعظم کے تمام تر باتوں کا لب لباب یہی تھا کہ گزشتہ دہائیوں سے حکومت کرنے والی دونوں فیملی کرپشن اور بدعنوانی کے ذریعے ملک کو لوٹتے رہے ہیں جبکہ منظور نظرافراد کو نوازاگیا، کوئی نظام ایساشفاف نہیں بنایا گیا جس سے کرپٹ افراد کو گرفت میں لایاجاسکے ۔دوسری جانب کشمیر اور افغانستان کے حوالے سے بھی انہوں نے اپنا مؤقف رکھا۔

وزیراعظم عمران خان کا غیرملکی خبررساں ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہنا تھا کہ پاکستان کی بدحالی کے ذمہ داربھٹو اور شریف خاندان ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ پاکستان میں وسائل کی کوئی کمی نہیں،بھٹو اورشریف خاندان نے وسائل کا ناجائز استعمال کیا۔عمران خان نے کہا کہ ہم ملک کو خوشحال بنانا چاہتے ہیں، ہمارا مقابلہ دو ایسے خاندانوں سے ہے جودولت سے مالا مال ہیں۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ بھٹو اورشریف خاندان سیاست نہیں خاندانی نظام قائم کرناچاہتے ہیں جبکہ پاکستان کی بدحالی کے ذمہ دار بھی یہی دونوں خاندان ہیں۔انہوں نے کہا کہ کوئی بھی معاشرہ قانون کی حکمرانی کے بغیرقائم نہیں رہ سکتا اورکرپشن ملک کو تباہ کردیتی ہے۔وزیراعظم عمران خان نے کشمیر کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مقبوضہ کشمیر ایک بڑے قیدخانے کا منظر پیش کررہاہے اور 80 لاکھ کشمیری ایک کھلی جیل میں زندگی بسرکرنے پرمجبور ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہم کشمیر کا مسئلہ ہر فورم پراجاگر کریں گے جبکہ بی جے پی کی حکومت بھارت اورخطے کیلئے خطرناک ہے ۔مجھے خدشہ ہے کہ بی جے پی حکومت کی موجودگی میں پاک بھارت ایٹمی جنگ نہ چھڑجائے۔

عمران خان نے انٹرویو دیتے ہوئے مزید کہا کہ نائن الیون میں کوئی افغان شہری ملوث نہیں تھا لیکن افغانستان پرامریکا کی مسلط کردہ جنگ ایک جنونی عمل تھا۔ان کا کہناتھا کہ امریکا نے افغانستان میں نام نہادجنگ کے نام پر20 سال تک قبضہ کیے رکھا، سمجھ نہیں آیا امریکی افغانستان میں کیا اہداف حاصل کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان کے ایک کروڑ 40 لاکھ عوام امداد کی منتظر ہیں اور امریکا کو اب افغان عوام کا ساتھ چھوڑنا نہیں چاہیے۔بہرحال وزیراعظم عمران خان کی جانب سے یہ باتیں پہلی بار سامنے نہیں آرہی ہیں پہلے بھی کرپشن کا تذکرہ کرچکے ہیں مگر اب معیشت کو نئی سمت دینے کے لیے اقدامات اٹھانا ضروری ہے تاکہ موجودہ بحرانات سے نکلا جا سکے وگرنہ نئی حکومت آئے گی وہ پھر ماضی کی حکومت پر تمام تر ملبہ ڈالے گی۔

کشمیر اور افغانستان معاملے پر اس وقت ملکی سیاسی جماعتوں کو ایک پیج پر آکر پالیسی مرتب کرنی چائیے اور مشترکہ ایک بیانیہ اپنانا چاہئے تاکہ مستقبل میں بھارت کے ساتھ تعلقات اور مسئلہ کشمیر کو کیسے حل کیاجائے ساتھ ہی افغانستان میں نئے بحران کے جنم کو روکنے کے لیے مؤثر حکمت عملی اپنائی جاسکے۔ مگر یہ تب ہی ممکن ہوگا جب ملک میں حکومت اوراپوزیشن کے درمیان سیاسی کشیدگی کم ہوگی مگر ایسا لگتا نہیں ہے کہ سیاسی اختلافات ختم ہونگے بلکہ انتخابات سے قبل ہی مزید اس میں شدت کاامکان ہے جوکہ کسی طرح بھی ملک کے مفاد میں نہیں ہے۔