|

وقتِ اشاعت :   December 23 – 2021

ملک میں سیاسی جماعتوں کی جانب سے سیاسی ودیگرمعاملات پر اسٹیبلشمنٹ کاذکر بارہا کیاجاتا ہے یہ کوئی انہونی بات نہیں ہے کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں اطراف سے سیاسی حوالے سے تذکروں میں اسٹیبلشمنٹ کو درمیان میں لایاجاتا ہے پھراس کے بعد اداروں کی سیاسی معاملات میں مداخلت اور انتخابات میں دھاندلی، فیصلوں پر اثرانداز ہونے جیسے حساس نوعیت کے الزامات لگائے جاتے ہیں اب اس میں کتنی صداقت ہے اس حوالے سے سیاستدان خود اس کا اعتراف بھی کریں تاکہ ان کے دعوے مصدقہ ثابت ہوسکیں۔ چونکہ ہر لیڈر اسٹیبلشمنٹ کا ذکر کرتا ہے مگر کسی کانام نہیں لیتا کہ اسٹیبلشمنٹ سے تعلق رکھنے والی کس شخصیت اور عہدیدار سے ان کی بات ہوئی ہے۔

یہی ایک مسئلہ ملک میں گزشتہ کئی سالوں سے چلتا آرہا ہے، گزشتہ روززرداری ہاؤس نواب شاہ میں کارکنان سے خطاب کرتے ہوئے سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری نے واضح طور پراعلان کیا کہ بلاول بھٹو پاکستان پیپلزپارٹی کے اگلے وزیراعظم ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم سب مل کر اس حکومت کو گھر بھیجیں گے۔ پہلے بھی کہا تھا اب بھی کہہ رہا ہوں کہ ان سے حکومت نہیں چلے گی۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں مہنگائی کا طوفان ہے جس سے غریب آدمی پریشان ہے۔آصف زرداری نے پارٹی کارکنان کو سرمایہ اور طاقت قرار دیا اور کہا کہ وفاق کے سندھ کے ساتھ مسائل چل رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ مسائل چلتے رہتے ہیں لیکن ہمارا قافلہ نہیں رکے گا۔سابق صدر پاکستان نے کہا کہ ہم سب وہ دن ضرور دیکھیں گے جب بلاول وزیراعظم ہوں گے۔ انہوں نے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ ملک کے حالات بہت نازک دور سے گزر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی کے پاس قیادت موجود ہے جو پاکستان چلائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کی حکومت نے ملک کے حالات خراب کردیے ہیں۔

آصف زرداری نے کہا کہ اس وقت غریب عوام سے جینے کا حق چھینا جارہا ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ہم اس ملک کو چلا بھی سکتے ہیں اور بنا بھی سکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پہلے دن ہی کہہ دیا تھا حکومت ان لوگوں کے بس کی بات نہیں ہے۔سابق صدر آصف علی زرداری نے کہا کہ ہمیں مستقبل کا سوچنا ہوگا کیونکہ جن لوگوں کے پاس مائنس ون جیسے فارمولے تھے وہ مدد کی درخواست کر رہے ہیں۔انہوں نے ملٹری اسٹیبلشمنٹ کا نام نہیں لیا لیکن ان کے حوالوں سے واضح تھا کہ وہ کس طرف اشارہ کر رہے ہیں۔سابق صدر آصف علی زرداری کے اس خطاب کے بعد ملکی سیاست میں ایک نئی بحث چھڑ چکی ہے کہ کن شخصیات نے آصف علی زرداری سے بات کی ہے یا انہیں اشارہ دیا ہے ۔بات وہیں آکر رک جاتی ہے کہ سیاستدان تذکرہ اسٹیبلشمنٹ کا کرتے ہیں مگرکسی کا نام نہیں لیتے صرف اشاروں کے ذریعے بتایا جاتاہے جبکہ دوسری طرف اول روز سے ہی اسٹیبلشمنٹ نے سیاستدانوں سے بیک ڈور رابطے، مداخلت کی سختی سے تردید کی ہے۔

بہرحال المیہ یہ ہے کہ سیاستدان خود کیوں سیاسی معاملات میں اداروں کو اپنے مفادات کیلئے درمیان میں لاتے ہیں اور رابطے کرتے ہیں ،پھر سیاسی نظام اور جمہوریت کو کمزور کرنے کے بڑے ذمہ داران خود سیاستدان ہی ہیں جو اداروں سے روابط رکھتے ہوئے اپنے مفادات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ البتہ یہ ضرور سوچنا چاہئے کہ ستر سال سے زائد عرصہ کے بعد بھی آج ملک کن چیلنجز اور بحرانات کا سامنا کررہا ہے کیونکر آج ہم پتھر کے زمانے کی طرف جارہے ہیں، مسائل نے ملک کو چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے ،ان تمام گھمبیر نوعیت کے مسائل سے کس طرح نکلاجاسکتا ہے یقینا اس کا واحد طریقہ اداروں کو اپنے دائرہ اختیار میں رہ کر کام کرنا ہوگا اور سب سے اہم بات پارلیمان کی بالادستی کو یقینی بنانے کے لیے خود سیاستدانوں کو سنجیدگی سے سیاسی معاملات چلانے ہونگے وگرنہ آنے والے دنوں میںنا ختم ہونے والے بحرانات پورے نظام کوبٹھادیںگے۔