|

وقتِ اشاعت :   March 8 – 2022

وزیراعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے حوالے سے حکومت اوراپوزیشن حلقوں نے رابطوں میں تیزی پیدا کردی ہے اب تو وزیراعظم خود میدان میں اترے ہیں اور دو جلسے بھی کرچکے ہیں جبکہ پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت مارچ کے ساتھ ملاقاتیں بھی کررہے ہیں۔ دوسری جانب اپوزیشن میں پیپلزپارٹی کا مارچ پنجاب سے اسلام آباد کی طرف بڑھ رہا ہے تو دوسری طرف پی ڈی ایم مختلف حکمت عملیوں پر بیک وقت کام کررہی ہے ۔سابق صدر آصف علی زرداری ذاتی طور پر ملاقاتوں اور رابطوں میں لگے ہوئے ہیں ۔

انتہائی دلچسپ سیاسی صورتحال بنتی جارہی ہے اور اس بار یہ دیکھنے کو مل رہا ہے کہ حکومت عدم اعتماد کی تحریک کو سنجیدگی سے لے رہی ہے گوکہ حکومتی نمائندگان یہ کہہ رہے ہیں کہ اپوزیشن اپنا شوق پورا کرلے کوئی فرق نہیں پڑے گا بلکہ اپوزیشن کو عدم اعتماد کی تحریک میں شکست ہوگی لیکن اس بار ماضی کی طرح کا معاملہ نہیں بلکہ اس بار خود حکومت کے وکٹ بھی گررہے ہیں اور اپوزیشن کی صف میں شامل ہورہے ہیں ۔ عدم اعتماد کی سنجیدگی کا اندازہ وزیراعظم کی اہم بیٹھک سے ہی لگایاجاسکتا ہے جنہوں نے خود جاکر ق لیگ کی قیادت سے ملاقات کی، گلے شکوے سنے، یقین دہانیاں کروائی گئیں۔ گزشتہ روزوزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت پی ٹی آئی کی کور کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں اس بات پرزیادہ زور دیا گیا کہ پی ٹی آئی کے ناراض اراکین کو منانے کے لیے کوششوں کو تیز کیاجائے اور ان کے تحفظات وخدشات سنیں جائیں۔

وزیر اعظم نے اجلاس میں کہا کہ چوروں کا ایجنڈا ناکام بنا دیں گے،عدم اعتماد والے شوق پورا کر لیں، ہماری تیاری مکمل ہے۔انہو ں نے کہا کہ جمہوری حکومت کو کوئی خطرہ نہیں،جن کو مقدمات سے خطرہ ہے وہ لوٹی ہوئی دولت سے انقلاب نہیں لا سکتے۔وزیراعظم عمران خان نے اجلاس میں جنوبی پنجاب صوبے کا بل قومی اسمبلی میں لانے کا فیصلہ بھی کیا ہے۔ دوسری جانب موجودہ سیاسی منظر نامے پر پنجاب کے سابق سینئر وزیر علیم خان بھی متحرک ہو گئے ہیں۔ انہوں نے پچھلے تین دن میں چالیس سے زائد ارکان صوبائی اسمبلی سے ملاقات کی۔اطلاعات کے مطابق علیم خان ترین ہم خیال گروپ سے بھی ملاقات کرینگے ۔ پارٹی میں تمام گروپس بشمول ترین گروپ کو اکٹھا کر کے مشترکہ لائحہ عمل اپنایا جائیگا۔جب تک سیاسی منظر نامہ واضح نہیں ہوتا تمام ارکان کے ناموں کو پوشیدہ رکھا جائے گا، چالیس ارکان میں دس صوبائی وزراء بھی شامل ہیں۔

دوسری جانب مسلم لیگ نواز کی سینئر قیادت نے بھی علیم خان سے رابطہ کیا ہے یہ ملاقات اور فیصلہ انتہائی اہم ثابت ہوگا جس کا براہ راست اثر عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی اور ناکامی پر ہوگا کیونکہ علیم خان نے بعض ارکان سے ملاقاتیں کی ہیں اب جہانگیر ترین کیا فیصلہ کرینگے اور کس کے ساتھ جائینگے یہ چند دنوں میں واضح ہوجائے گا کیونکہ جہانگیرترین پچھلے کچھ عرصے سے حکومت سے نالاں ہیں جس کی وجہ ان پر بننے والے کیسز ہیں اور ان کی پیشی بھی ہوتی رہی ،اس دوران یہی باتیں کی جاتی رہیں کہ کسی کو نہیں چھوڑا جائے گا اور یہ بات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ پی ٹی آئی کے اندر جہانگیر ترین کے سخت ترین مخالف شاہ محمود قریشی ہیں ،اول روز سے ان دونوں کے درمیان معاملات چلتے آرہے تھے اور بلآخر وزیراعظم عمران خان کے قریبی دوست جہانگیر ترین کے فاصلے بنی گالہ سے بڑھ گئے اورانہیںکنارہ کش کیا گیا یا خود ہوئے اس پر کھل کر بات تو نہیں کی گئی مگر جہانگیر ترین گروپ جب سامنے آیا تو یہ واضح ہوگیا کہ حکومت کے اندر بعض شخصیات انہیں پسند نہیں کرتے ،اب ان سے بھی رابطے کئے جارہے ہیں مگر آئندہ چند روز میں عدم اعتماد کی تحریک کی پوزیشن واضح ہوجائے گی جس پر سب کی نظریں لگی ہوئی ہیں۔