|

وقتِ اشاعت :   May 18 – 2022

اسلام شرف انسانیت کا علمبردار دین ہے۔ ہر فرد سے حسن سلوک کی تعلیم دینے والے دین میں کوئی ایسا اصول یاضابطہ روا نہیں رکھا گیا ہے جو شرفِ انسانیت کے منافی ہو۔ معاشرے کے دیگر طبقات کی طرح اسلامی ریاست میں اقلیتوں کو بھی ان تمام حقوق کا مستحق قرار دیا گیا ہے جن کا ایک مثالی اور فلاحی معاشرے میں تصور کیا جا سکتا ہے۔ اقلیتوں کے حقوق کی اساس معاملات دین میں ظلم و جبر کے عنصر کی نفی کر کے فراہم کی گئی، اسلامی معاشرے میں مسلمانوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اقلیتوں سے نیکی، انصاف اور حسن سلوک پر مبنی رویہ اختیار کریں۔ قرآن کا مفہوم ہے’’اللہ تمہیں اس بات سے منع نہیں فرماتا کہ جن لوگوں نے تم سے دین (کے بارے) میں جنگ نہیں کی اور نہ تمہیں تمہارے گھروں سے (یعنی وطن سے) نکالا ہے کہ تم ان سے بھلائی کا سلوک نا کرو اور اْن سے عدل و انصاف کا برتاؤ نا کرو، بیشک اللہ عدل و انصاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے‘‘ اسلامی معاشرے میں اقلیتوں کے حقوق کو کتنی زیادہ اہمیت دی گئی ہے اس کا اندازہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان سے ہوتا ہے :’’خبردار! جس کسی نے کسی معاہد (اقلیتی فرد) پر ظلم کیا یا اس کا حق غصب کیا یا اس کو اس کی استطاعت سے زیادہ تکلیف دی یا اس کی رضا کے بغیر اس سے کوئی چیز لی تو روزِ قیامت میں اس کی طرف سے (مسلمان کے خلاف) جھگڑوں گا۔‘‘ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد مبارکہ میں ایک دفعہ ایک مسلمان نے ایک غیر مسلم کو قتل کر دیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قصاص کے طور پر اس مسلمان کو قتل کرنے کا حکم دیا اور فرمایا : ’’غیر مسلموں کے حقوق کی حفاظت میرا سب سے اہم فرض ہے۔‘‘مقدس ہستیوں،مقدس کتب خصوصاً انبیاء ورْسل سے متعلق نازیباکلمات واندازکسی بھی معاشر ے میں برداشت نہیں کئے جاتے مگر پاکستان میں ایک مخصوص قانون نے اس ساری صورتِ حال کواقلیتوں سے وابستہ کر دیا ہے۔اقلیتیں اس قانون کے حوالے سے شدیدعدم تحفظ کاشکار ہیں،اس حقیقت کاایک افسوسناک پہلویہ ہے کہ جن پرتوہین مذہب یا توہین رسالت کاالزام لگتا ہے، اْن پرعدالت میں جاکر جرم ثابت کرنے کے بجائے حملے کئے جاتے ہیں اور انہیں ماورائے عدالت قتل کردیاجاتاہے۔اس پرتشدداورخوفناک ماحول کے پیشِ نظرجج اوروکلاء ایسے مقدمات کی سماعت اور کاروائی کوآگے بڑھانے سے قصداً گریزکرتے ہیں۔ اس قتل وغارت میں ملوث انتہاپسند ذہنیت رکھنے والے لوگ کسی قانونی کارروائی سے محفوظ رہتے ہیں۔مذہبی اقلیتوں کاتاثریہ ہے کہ اصولی ونظریاتی طور پر اگریہ قانون درست بھی ہے تو اس کے عمل درآمدمیں بہت سی ناانصافیاں موجود ہیں۔ اِن حالات میں عدالتیں دباؤمیں کام کرنے پر مجبورہیں اورذرائع ابلاغ عامہ اپنی غیرجانب داریت کوقائم رکھنے سے قاصر دکھائی دیتا ہے۔افسوس کامقام یہ ہے کہ اس خطرناک اورگمبھیر صورتِ حال کی اصلاح کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش ابھی تک منظر عام پرنہیں آئی ہے۔کسی بھی مہذب معاشرے میں بلا تحقیق وتفتیش کسی شخص کو کسی جرم کا مرتکب قراردینا،قطعاً ظلم اور ناقابل برداشت فعل ہے۔ اقلیتوں سے متعلق اس فکری چیلنج کوسمجھے اور اس پر مناسب فیصلہ سازی کئے بغیر امن، خوشحالی اور فراہمی انصاف کے کسی دعوے کی تصدیق وتائید نہیں ہو سکتی۔ جبکہ اس بھی زیادہ اہم تبدیلی مذہب کا مسئلہ ہے۔تبدیلی مذہب سے اقلیتوں کی طرف سے یہ شکایات اکثرموصول ہوتی ہیں کہ اْن کی لڑکیوں کوزبردستی مسلمان بناکرشادیاں کرلی جاتی ہیں، نیزاْن کے نا بالغ بچوں کے مذہب بھی تبدیل کئے جاتے ہیں۔ اس ظالمانہ اور غیر اسلامی روش کاسدباب مسلم اْمہ کی اجتماعی معاشرتی ذمہ داری ہے۔ اسی پس منظر میں گزشتہ دنوں سندھ اسمبلی نے اقلیتوں کے حقوق کے عنوان سے ایک بل منظورکیاہے جس کے مطابق کسی غیر مسلم لڑکے/لڑکی کی اٹھارہ سال سے پہلے اسلام لانے پرپابندی عائدکردی گئی ہے اوراسے قابل تعزیر جرم قرار دیا گیا ہے یہ امر مسلمہ ہے کہ اسلام میں کسی کو زبردستی مسلمان بناناقطعاً جائز نہیں اورایسی کسی کوشش کو روکنابھی درست ہے جس میں کسی شخص پرتبدیلی مذہب کے لیے دباؤ ڈالا جائے، لیکن دوسری طرف اپنی مرضی سے ا سلام لانے پرپابندی لگاکرکسی کو دوسرے مذہب پرباقی رہنے کے لئے مجبورکرنا بھی بدترین زیادتی ہے۔ اگرکوئی نابالغ بچہ مسلمان ہوناچاہے تواْسے روکنا بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ اس قابل اعتراض قانون کومنسوخ کیاجا ئے، البتہ اگرتبدیلی مذہب کے لیے کسی زبردستی یا جبر کا ارتکاب کیاجائے تو اس کے مرتکب افراد یا اداروں کے خلاف موثر کاروائی ضرورکی جائے۔ اقلیتوں کے لیے مسائل پیداکرنے میں اکثریتی آبادی کے جذباتی اورغیرتحقیقی رویوں کوبڑادخل حاصل ہے۔ مذہبی اشتعال پیداکرنے والے اکثر واقعات کی تحقیق وتفتیش جب بھی کی گئی تو معلوم ہواکہ اصل مسئلہ وہ نہیں جس کاشہرہ تھا۔ توہین رسالت اورقرآن مجیدکونذرِ آتش کرنے کے بہت سے واقعات کی حقیقت یہ ہے کہ ان کے پس منظرمیں ذاتی انتقام، غصہ اور تعصب کارفرماتھا۔اقلیتوں سے متعلق امورمیں غیرتحقیقی رویوں کو اختیار کرنا ایک ایسا مذہبی وسماجی مسئلہ ہے جس کے اثرات پاکستان مسلسل بھگت رہاہے۔ضرورت اس امرکی ہے کہ تمام معاشرتی طبقات کو عدل، مساوات اورتحقیق کاپابندکیاجائے۔ قومی وبین الاقوامی مسائل کے حل میں علمی مکالمہ کاکردارانتہائی اہمیت کاحامل ہوتاہے، مذہبی اقلیتوں کے مسائل کیا ہیں؟ ان کے اسباب ومحرکات کیاہیں؟مذہبی اقلیتوں کے مسائل حل کرنے میں کون سے عوامل وعناصرموثر ہوسکتے ہیں؟ اس ضمن میں مذہب ہماری کیا رہنمائی کرتاہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کاجواب ایک موثرعلمی مکالمہ ہی سے دیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ مکالمہ دوطرفہ عمل ہے جس میں مسئلہ کے تمام پہلوؤں پربحث ہوتی ہے۔ مکالمہ سے انحرافی گریز، ضد، اشتعال اورغیرسنجیدگی کی علامت ہوتی ہے۔مکالمے کی عدم موجودگی کامطلب یہ ہوتاہے کہ افرادواقوام نے اپنے تمام مسائل حل کرلئے ہیں یاپھریہ کہ تمام طبقات کی علمی صلاحیتیں کمزورپڑگئی ہیں۔اس علمی کمزوری کافائدہ مخصوص مفاداتی طبقات اٹھاتے ہیں۔یہ طبقات تشدد اور عدم برداشت کی راہ ہموارکرتے ہیں اورمعاشرے میں شکست وریخت کاباعث بنتے ہیں۔مذہبی اقلیتوں کے وجود، ان کے تشخص اور اْن کے سیاسی ومذہبی حقوق پربات چیت سے گریز کرنا،پاکستانی مسلمانوں کیلئے ایک اہم نفسیاتی اور فکری چیلنج ہے۔علمائے کرام،اہل دانش، پالیسی سازشخصیات اورعام لوگوں کواس چیلنج کی حساسیت کااحساس کرتے ہوئے اقلیتوں کے سماجی،علمی،سیاسی اورمذہبی معاملات میں گنجائش اوروسعت کا پہلوتلاش کرناہوگاجوکہ مؤثرمکالمہ کے بغیر ممکن نہیں۔ اقلیتوں سے عدم رواداری کاایک اہم سبب یہ ہے کہ لوگ اپنے دائرہ اختیار سے لاعلم ہیں،وہ ہر چیزکو انفرادی اور ذاتی حیثیت میں اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں۔اگراس کوشش میں وہ ناکام ہوجائیں تو انتہائی اقدام کرنے سے گریزنہیں کرتے،اس بات کی فکرکم ہی ہوتی ہے کہ یہ عمل یاردعمل میرے دائرہ اختیارمیں بھی ہے یا نہیں۔ توہین رسالت اور قرآنی اوراق جلانے کے ردعمل میں جتنے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں، اْن میں کبھی کسی نے یہ نہیں خیال کیاکہ ان واقعات پرردعمل دینااس کے دائرہ اختیار سے باہرہے۔ نیزوہ اللہ تعالیٰ کے ہاں بھی اس عمل کا جواب دہ نہیں ہے۔اگرعدالتی نظام کومضبوط بنایاجائے اوراس نظام پر اعتمادکیاجائے توریاست ایسے واقعات سے زیادہ بہترطورپرنمٹ سکتی ہے۔ ریاستی نظام کی تمام ترکمزوریوں کے باوجودکسی فردکویہ حق نہیں دیاجا سکتاکہ وہ قانون کواپنے ہاتھ میں لے اورکسی بھی قسم کی مذہبی اشتعال انگیزی کاباعث بنے۔ مختلف معاملات میں افرادِ معاشرہ کامختلف نقطہ ہائے نظرکاحامل ہوناایک فطری امر ہے۔تمام لوگوں کی علمی وفکری اور ذہنی وجسمانی صلاحیتیں ایک جیسی نہیں ہوسکتیں ایک ہی ماحول ومعاشرہ میں مختلف العقائد لوگوں کی موجودگی سے کسی نہ کسی تنازعہ یا تناؤ کا پیدا ہو جانا فطری امر ہوتا ہے لیکن اربابِ فکرودانش افراد اور اقوام کے درمیان تنازعات کو سنجیدگی کے ساتھ ختم کر نے کے لیے پرعزم ہوں تومعاشرہ مذہبی ہم آہنگی کی بہترین تصویرپیش کرسکتاہے۔ ماضی بعید اور ماضی قریب میں پاکستان کی اقلیتوں کے ساتھ مختلف اوقات میں پیش آنے وا لے نامناسب سلوک کے نتیجے میں جوتنازعات سامنے آئے ان کو حل کر نے میں بہت زیادہ سنجیدگی دیکھنے میں نہیں آئی۔قومی سطح پراس احساس کی بیداری اشدضروری ہے کہ اگرکسی معاملہ میں کوئی مذہبی اختلاف اشتعال کی شکل اختیار کرنے لگے توفوراًایسے اقدامات کئے جانے چاہییں جن سے ماحول پرامن منزل کی طرف بڑھ سکے۔ اس طرح کے تنازعات کے حل کے ضمن میں اختیار کی جانیوالی غیر سنجیدگی کی روش اقلیتوں سے متعلق امورمیں مایوسی کی فضا کوپیداکرتی ہے۔زندہ بیدارمغز اور باشعور لوگوں کی حیثیت سے ہمیں اقلیتوں سے متعلق تنازعات کوحل کرنے کیلئے مستقل بنیادوں پرمنصوبہ بندی کرناہوگی کیونکہ ان تنازعات پرعدمِ توجہ کے نتیجے میں ہمارا معاشرہ تشدد، ضد، انا ،خوف، احساسِ کمتری اور اجتماعیت سے دوری منفی رجحانات کا شکار ہو رہا ہے۔ تنازعات کاعلم جدید سماجی علوم میں بڑی اہمیت اختیارکرچکاہے۔ اس شعبہ علم سے بھرپوراستفادہ عصر حاضر کی ایک اہم ضرورت ہے۔ اقلیتوں کی حیثیت کوتسلیم کرنے اوراْنہیں حقوق فراہم کرنے کے ضمن میں مسلم اْمہ کوعصر جدید میں جن چیلنجز کا سامنا ہے، اْن کا مناسب حل تلاش کرناازحدضروری ہے۔مسلم اْمہ کودرپیش فکری چیلنجزکی تفہیم کویقینی بنانے کے لیے دینی مدارس اورعصری تعلیمی اداروں میں ہم آہنگی پیداکرنے کے لئے اقدامات کیے جانے لازمی ہیں۔ان اداروں میں تحقیقی مقالات، سیمینارز، کانفرنسوں اور کلاس روم لیکچرزکے ذریعے اقلیتوں سے متعلق شعور کو بیدار کیا جائے۔ نیزسماجی وسیاسی ڈھانچے کومعتدل ومتوازن بنانے کے لئے ہرقسم کے تعصب کوبالائے طاق رکھا جائے۔ اس ضمن میں نہایت ضروری ہے کہ نصابِ تعلیم میں اقلیتوں اورمذہبی تکثیریت سے متعلق مختلف مباحث کوشامل کیا جائے، اس ضمن میں مختلف مذاہب کی تعلیمات سے مدد لی جائے اور ان کے نمائندوں کومختلف نصابی کمیٹیوں میں متناسب نمائندگی دی جائے۔ اقلیتوں سے متعلق شعورکی بیداری میں ذرائع ابلاغ کوبھی استعمال کیاجائے۔ علاوہ ازیں اختلاف اورتنقیدکی اخلاقیات کی پابندی کو ہر طبقہ فکرمیں رواج دیا جائے۔مذہبی اشتعال انگیزی کوریاستی اداروں کے ذریعے کنٹرول کیاجائے اور اس ضمن میں کسی بھی طبقہ کے ساتھ کوئی رعایت نہ برتی جائے۔اقلیتوں سے متعلق معاملات میں عدل، احتیاط اور تحقیق سے کام لیا جائے، نیز کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہ دی جائے۔پاکستان میں اقلیتوں کی حیثیت اوراْن کے حقوق کی ادائیگی سے متعلق عالمی سطح پر پائی جانے والی غلط فہمیوں کو دور کیا جائے۔اسلام کے سیاسی نظام کی وضاحت میں اعتدال وتوازن سے کام لیاجائے۔  ریاست، اقلیتوں، جہاد اور توہین رسالت جیسے حساس موضوعات پرغیرذمہ دارانہ تبصرہ سے گریز کیا جائے۔ پاکستان میں موجود مذہبی اقلیتوں کواہل مغرب کاہم خیال اورہم نواسمجھنے کے بجائے محبِ وطن شہری تصور کیا جائے، اگرکسی معاملے میں کوئی تنازعہ سامنے آئے تواختلافِ رائے کے اصول وآداب کوملحوظِ خاطررکھتے ہوئے اس مسئلہ کوحل کرنے کی غیر جانبدارانہ اورموثر کوششیں کی جائیں۔تاکہ آئندہ اس طرح کے تنازعات جنم نہ لے سکیں۔