|

وقتِ اشاعت :   June 13 – 2022

بلوچ مظاہرین اور سی ٹی ڈی حکام کے درمیان ہونے والے مذاکرات سے پولیس مکر گئی، مظاہرین کو سندھ اسمبلی کے قریب روک دیا

کراچی یونیورسٹی کے دو بلوچ طلبا کی جبری گمشدگی کے خلاف احتجاجی مظاہرین پر سندھ پولیس کا تشدد، متعدد گرفتار, شیر خوار بچے زخمی ہوگءے۔

مظاہرین اور سی ٹی ڈی حکام کے درمیان آج ہونے والے مذاکرات سے سندھ پولیس مکر کے بعد مظاہرین نے کراچی پریس کلب سے سندھ اسمبلی کے قریب دھرنا دے دیا۔ پولیس نے مظاہرین پر دھواں بول دیا۔

کراچی یونیورسٹی کے دو بلوچ طلبا کی جبری گمشدگی کے خلاف احتجاجی مظاہرین اور سی ٹی ڈی حکام کے درمیان آج ہونے والے مذاکرات سے سندھ پولیس مکر گئی۔ مظاہرین نے وزیراعلی سندھ ہاوس کی جانب مارچ کرنے کی کوشیش کی۔ پولیس نے انہیں آگے بڑھنے سے روک دیا۔ تاہم مظاہرین نے وزیراعلی ہاوس جانے کے بجائے سندھ اسمبلی کی جانب مارچ شروع کردیا۔ پولیس نے سندھ اسمبلی کی جانب مارچ کرنے سے بھی مظاہرین کو روک دیا۔ آخری اطلاع تک مظاہرین اور پولیس کے درمیان دھکم پیل کا سلسلہ جاری ہے۔ کسی وقت بھی بلوچ خواتین اور بچوں کو گرفتار بھی کیا جاسکتا ہے۔ واضع رہے کہ آج سندھ اسمبلی کا اجلاس بھی جاری ہے۔ اور کل (منگل) سندھ اسمبلی میں سندھ کا بجٹ پیش ہوگا۔ جس کی وجہ سے سندھ اسمبلی کے اطراف میں سیکیورٹی ہائی الرٹ ہے۔ مظاہرین نے سندھ اسمبلی جانے والی سڑک کو بلاک کردیا۔ جس کی وجہ سے ٹریفک شدید جام ہوگیا۔
واضع رہے کہ اتوار کی شپ کو سندھ پولیس کی جانب لاپتہ طلبا کی بازیابی کی یقین دھانی کے بعد مظاہرین نے سندھ اسمبلی کے سامنے احتجاجی دھرنے کو عارضی طور پر ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ مظاہرین اور سندھ پولیس کے درمیان ایک تحریری معاہدہ ہوا تھا۔ تاہم آج سندھ پولیس مذاکرات سے مکر گئی۔ جس پر مظاہرین مشتعل ہوگئے۔ مظاہرین کی قیادت بلوچ یکجہتی کمیٹی کراچی کی آرگنائزر آمنہ بلوچ اور وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی ڈپٹی سیکریٹری سمی بلوچ کررہی ہیں۔ مظاہرے میں انسانی حقوق کے رہنما پروفیسر ریاض احمد اور نغمہ اقتدار بھی شامل ہیں۔
مظاہرین کا کہنا ہے کہ 7 جون 2022 کو بلوچستان کے ضلع کیچ سے تعلق رکھنے والے دو بلوچ طلبا کو کراچی سے لاپتہ کیا گیا۔ کراچی کے علاقے مسکن چورنگی میں واقعہ گھر پر چھاپہ مارکر دودا بلوچ ولد الہی بخش اور اس کے ڈیپارٹمنٹ فیلو غمشاد بلوچ ولد غنی بلوچ کو خفیہ اداروں اور سیکورٹی فورسز کے اہلکاروں نے جبری طور لاپتہ کردیا ہے۔ دودا بلوچ کراچی یونیورسٹی کے شعبہ فلاسفی میں تیسرے سیمسٹر غمشاد بلوچ پانچواں سیمسٹر کے طالب علم ہیں۔ دودا بلوچ کا تعلق ضلع کیچ کے مرکزی شہر تربت سے ہے جبکہ غمشاد بلوچ کا ضلع کیچ کے علاقے مند سے ہے۔مظاہرین کا کہنا ہے کہ سات جنوری 2022 سے دونوں بلوچ طلبا تاحال سیکیورٹی ادارے کے پاس ہیں۔انہوں نے حساس اداروں پر یہ الزام لگایا ہیں کہ وہ کراچی میں بلوچوں کو ماورائے قانون اٹھا رہے ہیں اور سرکاری ادارے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ اور کراچی میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبا کو نشانہ بنارہے ہیں۔
مظاہرین نے پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو اور وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ سے دودا بلوچ اور غمشاد بلوچ کی بازیابی کا مطالبہ کیا۔

One Response to “بلوچ خواتین اور بچوں پر سندھ پولیس کا تشدد, متعدد گرفتار، شیرخوار بچے شدید زخمی”

  1. Abdul Hai

    پولیس نے سوائے نفرت کے کچھ نہی کمایا ۔ پولیس عوامی ھو تو رینجرز اور پرائیوٹ گارڈز کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ مگر سندھ کے حکمران کی عقلمندی کیے اعلی درجے پر فائز ھین

Comments are closed.