|

وقتِ اشاعت :   September 26 – 2022

سندھ ہائی کورٹ نے ایڈمنسٹریٹر کراچی مرتضی وہاب کی ’کے الیکٹرک‘ کے ذریعے بجلی کے بلوں میں میونسپل ٹیکس کے نفاذ کو جاری رکھنے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے آئندہ سماعت تک وصولی سے روک دیا۔

جماعت اسلامی نے کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن (کے ایم سی) کے لیے کے الیکٹرک کے بجلی کے بلوں کے ذریعے میونسپل یوٹیلیٹی چارجز اینڈ ٹیکسز کی وصولی کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔

سندھ ہائی کورٹ میں کے الیکٹرک کے ذریعے کے ایم سی ٹیکس وصولی کی درخواست کی سماعت ہوئی، دوران سماعت ایڈمنسٹریٹر کراچی مرتضیٰ وباب عدالت میں پیش ہوئے۔

 

عدالت نے استفسار کیا کہ کس قانون کے تحت یہ ٹیکس وصول کیے جائیں گے جس پر مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ اس حوالے سے قانون موجود ہے، کے ایم سی کے پاس 16 کروڑ روپے ٹیکس اس مد میں وصول ہو رہے ہیں، اب اس سے سوا 3 ارب روپے کی رقم وصول ہوگی۔

عدالت نے کہا کہ یہ جو موٹر وہیکل ٹیکس وصول کیے جارہے ہیں، اس کا کیا ہوا، جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے کہ صفائی تو ہو نہیں رہی ہے شہر میں، کے الیکٹرک کے بلوں میں کیوں وصول کر رہے ہیں؟ شہری نہ دیں تو ان کی بجلی کٹ جائے، کے ایم سی کے پاس طریقہ کار موجود ہے، کے الیکٹرک پر لوگ تپے ہوئے ہیں، اب ان کی گاڑیوں پر کچرا پھینکا جارہا ہے۔

جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ کے ایم سی کا اپنا ریکوری سیل ہو جو وصولی کرے، مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ کے ایم سی کا کام شہر میں کام کرنا ہے، پارک بنانا ہے جس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ تو وصولی کے لیے صرف کے الیکٹرک بچا ہے۔

مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ ہم نے کوشش کی تھی ریکوری کرنے کی مگر کامیاب نہیں ہوسکے۔

عدالت نے درخواست گزار کو ہدایت کی کہ سی ای او کے الیکٹرک کی جگہ کے الیکٹرک کو فریق بنایا جائے، اس حوالے سے دائر تمام درخواستیں ایک ساتھ منسلک کردی جائیں۔

درخواست گزار نے استدعا کی کہ جب تک درخواست کا فیصلہ نہیں ہوتا حکم امتناع جاری کیا جائے، عدالت نے کہا کہ پیسے لے رہے ہیں تو سروسز تو دیں۔

ایڈمنسٹریٹر کراچی نے کہا کہ شہر میں کام ہو رہا ہے، اس کے ذریعے شہر کی خدمت ہوگی، عرصہ دراز سے یہ ٹیکس چلتا آرہا ہے، اس کا مقصد شہر کے انفرااسٹرکچر کو بہتر بنانا ہے جس پر عدالت نے کہا کہ بل ادا نہ کرنے والوں کی بجلی نہ کاٹی جائے پہلے یہ یقین دہانی کرائیں۔

مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ سر یہ بل وصول کرنے دیں، یہ ٹیکس کا پیسہ ایمانداری سے خرچ ہوگا، عدالت نے ریمارکس دیے کہ کسی تھرڈ پارٹی سے ریکوری کریں۔

جسٹس حسن اظہر رضوی نے آئندہ سماعت تک کے الیکٹرک کے بلوں میں کے ایم سی ٹیکس کی وصولی سے روکتے ہوئے کہا کہ جب آپ ہمیں مطمئن کردیں گے تو ہم اس ٹیکس کو بحال کردیں گے، ہم آپ کے اقدامات کو سراہتے ہیں۔

ایڈمنسٹریٹر کراچی نے کہا کہ یہ ٹیکس 50 روپے سے شروع ہو رہا ہے اور 200 روپے تک ہے، براہ مہربانی اس کو ابھی نہ روکیں، عدالت نے کہا کہ جس طرح سے ریکوری کرنا ہے کریں لیکن ’کے الیکٹرک‘ کے ذریعے نہ کریں، جو ادا نہ کرے اس کی بجلی نہ کاٹی جائے، نارمل طریقے سے ریکوری کریں کے الیکٹرک سے مت کریں۔

 

مرتضی وہاب نے کہا کہ سر میں نے بڑی محنت سے یہ طریقہ کار تیار کیا ہے، کچھ موقع دیں، اس ٹیکس میں لوگوں کو رعایت دی ہے، 5 ہزار کے ٹیکس کو 200 روپے کردیا، اگست سے یہ ٹیکس لاگو کیا ہے۔

عدالت نے کہا کہ اس ٹیکس کی مد میں لوگوں کو کیا دیں گے، اس پر مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ ہم سڑکیں، پُل بنائیں گے،عدالت نے استفسار کیا کہ جو پہلے ٹیکس وصول کر رہے ہیں اس کا کیا کر رہے ہیں، مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ ہم اس وقت مکمل طور پر وفاقی اور صوبائی حکومتوں پر انحصار کر رہے ہیں۔

عدالت نے کہا کہ حکومتوں کی یہ ذمہ داری ہیں کہ لوگوں کے کام کرے، یہاں کیا کام ہو رہا ہے، اسٹریٹ لائٹس تک نہیں ہیں۔

ایڈمنسٹریٹر کراچی نے کہا کہ اس ٹیکس سے 3 ارب روپے وصول ہوں گے، اگلی سماعت تک کی مہلت دیں، میں تمام جاری ترقیاتی کاموں کی تفصیلات بتاؤں گا جس پر عدالت نے کہا کہ ہم کسی ٹیکس وصولی کے خلاف نہیں ہیں مگر کے الیکٹرک کے ذریعے وصول نہ کریں۔

 

مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ اس وقت کئی منصوبوں پر کام ہو رہا ہے، کئی سڑکوں، انڈر پاسز، شاہراہوں اور دیگر کئی منصوبوں پر کام چل رہا ہے، کم سے کم 50 روپے، زیادہ سے زیادہ 200 روپے ہے اس سے ایک روپیہ بھی زیادہ نہیں ہے، پانچ ہزار روپے کے ٹیکس کو دو سو روپے کردیا ہے، پہلے کسی اور جیب میں جارہا تھا اب کے ایم سی کے پاس آئے گا۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ سروسز کیا دیں گے آپ شہریوں کو اس بدلے، ایڈمنسٹریٹر کراچی نے کہا کہ سڑکیں، انڈر پاس، پُل وغیرہ، عدالت نے کہا کہ یہ سب عوام کے پیسوں سے کریں گے، مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ 209 سڑکوں کی دیکھ بھال کے ایم سی کی ذمہ داری ہے۔

جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ کراچی، وفاق اور صوبے کو اتنے پیسے دے رہا ہے لیکن کراچی کو ایسے پیسہ دیا جاتا ہے جیسے بھیک دی جاتی ہے، پراپرٹی ٹیکس اور وہیکل ٹیکس کا 20 فیصد بھی لگادیں تو اس ٹیکس کی ضرورت نہیں ہے، سڑکیں ٹوٹی ہوئی ہیں، کوئی سروس دیے بغیر کیسے کوئی ٹیکس لیں گے۔

ایڈمنسٹریٹر کراچی نے کہا کہ یہ نیا ٹیکس نہیں ہے، پرانا ٹیکس ہے، اس کو ابھی نہ روکیں، میں آئندہ سماعت تک تمام تفصیلات پیش کروں گا، جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ تمام کام آپ کر رہے ہیں تو سندھ حکومت کیا کر رہی ہے۔

مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ سندھ حکومت بھی کام کر رہی ہے، اس ٹیکس کو مت روکیں، کے پی ٹی سے ابھی 9 سال بعد ٹیکس وصول کیے ہیں۔

 

جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے کہ جو آدمی پراپرٹی ٹیکس، موٹر وہیکل ٹیکس دے رہا ہے، یہ ڈبل چارجز کیوں؟ کے الیکٹرک کے ذریعے یہ ٹیکس نہیں، ایڈمنسٹریٹر کراچی نے کہا کہ 50 لوگوں کے احتجاج پر یہ سب ہو رہا ہے۔

اس موقع پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ کے الیکٹرک کے ذریعے شہریوں پر میونسپل چارجز لگانا مناسب نہیں ہے، اس کے ساتھ ہی عدالت نے آئندہ سماعت تک کے الیکٹرک کے ذریعے میونسپل ٹیکس کی وصولی سے روک دیا۔

خیال رہے کہ جماعت اسلامی نے کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن کے لیے ’کے الیکٹرک‘ کے بجلی کے بلوں کے ذریعے میونسپل یوٹیلیٹی چارجز اینڈ ٹیکسز کی وصولی کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔

23 ستمبر کو جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمٰن اور دیگر نے سندھ ہائی کورٹ کو درخواست دی تھی کہ میونسپل یوٹیلیٹی چارجز اینڈ ٹیکسز ایڈمنسٹریٹر کراچی کی جانب سے منظور کردہ قرارداد کی روشنی میں نافذ کیا گیا جو کہ غیر قانونی اور قانون کی شق سے ماورا ہے۔

انہوں نے بجلی کے بلوں کے ذریعے میونسپل یوٹیلیٹی چارجز اینڈ ٹیکسز کی وصولی کو غیر قانونی قرار دینے اور اس طرح کے ٹیکس کو بجلی کی کھپت سے منسلک کرنے کے عمل کو منسوخ کرنے کی استدعا کی۔

حافظ نعیم الرحمٰن نے سندھ ہائی کورٹ سے استدعا کی کہ وہ ایڈمنسٹریٹر کی دستخط شدہ قرارداد کو کالعدم قرار دے اور کے الیکٹرک کو بجلی کے بلوں میں میونسپل یوٹیلیٹی چارجز اینڈ ٹیکسز جمع کرنے سے روکے۔