|

وقتِ اشاعت :   December 20 – 2022

ملک میں توانائی بحران پر قابو پانے کے لیے ایک بار پھر تجارتی مراکز کو رات 8بجے جبکہ شادی ہالز کو رات 10بجے بندکرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس کا بنیادی مقصد توانائی کی بچت ہے۔ اس فیصلے کو یقینا تاجر برادری تسلیم نہیں کرے گی کیونکہ کراچی سمیت بڑے شہروں میں تجارتی سرگرمیوں سمیت شادی ہالز رات دیر تک کھلے رہتے ہیں۔

اور اسی دوران ان کا کاروبار زیادہ چلتا ہے۔ان حکومتی احکامات کے بعد تاجر برادری پر زیادہ زور آئے گا کیونکہ موجودہ معاشی صورتحال پر پہلے سے ہی وہ پریشان ہیں، ٹیکسزکی بھرمار ہے اور کاروبارٹھپ ہے جبکہ دیگر مسائل بھی بہت زیادہ ہیں، دن کے اوقات میں بھی بجلی اور گیس نہیں ملتی تو کس طرح سے کاروبار چلے گا۔

یہ بھی بنیادی سوال ہے اگر ہم دنیا کی مثالیں دیتے ہیں تو وہاں پر بجلی اور گیس کی قلت کو پورا کرنے کے لیے حکومتی سطح پر مستقل اور لانگ ٹرم پروگرام بنائے جاتے ہیں ہمارے ہاں بدقسمتی سے بحران سر پرتلوار بن کر لٹک جاتی ہے تب ہوش کیاجاتا ہے کہ اب کیا حکمت عملی اپنانی چاہئے اور اس کا نتیجہ بندش پر آجاتا ہے جس کے بعد یقیناکاروباری طبقہ کی جانب سے ردعمل بھی آتا ہے اور وہ احتجاج کی طرف چلے جاتے ہیں۔خدارا توانائی بحران کئی دہائیوں سے ملک میں موجود ہے آج بھی عام لوگ بجلی اور گیس سے مکمل محروم ہیں اس سے سابقہ اور موجودہ حکومت بھی واقف ہے۔بہرحال دوسری جانب تاجربرادری کی جانب سے شدید ردعمل آنا شروع ہوگیا ہے تاجر برادری نے شکوہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ بغیر مشاورت کے اتنا بڑا فیصلہ نہیں کیاجاسکتا حکومت تاجربرادری سے بات کرتی اور پھر کوئی راستہ نکل آتا۔ کراچی کی تاجربرادری کی جانب سے کہا گیا ہے کہ اگر زبردستی کاروبار بند کرنے کی کوشش کی گئی تو سخت ردعمل دینگے البتہ یہ سنجیدہ معاملہ ہے گفت وشنید کا موقع اب بھی موجود ہے حکومتی سطح پر بات چیت ضروری ہے تاکہ افہام وتفہیم سے یہ مسئلہ حل ہوجائے۔ ماضی کے تجربات بھی سامنے ہیں کہ کس طرح کورونا کے دور میں بھی کاروبار بند کئے گئے لیکن خفیہ طور پروہ چلتے رہے ۔

جس سے ایک نیا راستہ رشوت کا نکل آیا۔ جہاں کاروبار بند کرنے کی بات کی جاتی ہے تو مقامی سطح پر چند آفیسران رقم بٹورتے ہوئے خفیہ طور پر دکانیں اورشادی ہالز کھولنے میں مدد فراہم کرتے ہیں لہٰذا اس عمل کو بھی ضرور دیکھنا چاہئے اگر قانونی طریقے سے سب ملکر مشاورت کے ساتھ کوئی راستہ نکالیں گے تو یقینا نتائج بھی اچھے نکلیں گے۔

دوسری جانب حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ موجودہ توانائی بحران سے نمٹنے کے لیے متبادل ذرائع اور دیگر ممالک سے توانائی کے متعلق منصوبوں پر کام کرے تاکہ ملک کو توانائی بحران سے نکالاجاسکے کیونکہ یہ حل نہیں بلکہ مزید نقصان کا باعث ہے۔

کاروبار بند ہونگے تو ریونیو بھی نہیں آئے گا، لوگوں کے روزگار پر بھی اثر پڑے گا،بیروزگاری کا بھی خدشہ ہے جس طرح ماضی میں بہت سے لوگ ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے، جب کاروبار بندہوگئے تھے تو مالکان نے اپنے ملازمین کو فارغ کرنا شروع کردیا تھا کیونکہ ہمارے پاس فوری فیصلے کے احکامات ہیں مگر لوگوں کے روزگار کو تحفظ فراہم کرنے کے متعلق کوئی پالیسی موجود نہیں ہے۔ آج بھی ملک میں مہنگائی اور بیروزگاری سب سے بڑا مسئلہ ہے جسے اب تک حل نہیں کیا گیا ہے لوگ بدترین زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔