|

وقتِ اشاعت :   January 6 – 2023

ملک میں توانائی کا بحران گزشتہ کئی برسوں سے چل رہا ہے، تاجر اور عوام کو بجلی پہلے سے ہی شیڈول کے مطابق فراہم نہیں کی جارہی ہے، غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کے باعث تاجر اور شہری متعدد بار اپنااحتجاج ریکارڈ کراچکے ہیں مگر اس کے باوجود ملک میں بجلی کی فراہمی ایک بہت بڑا مسئلہ بن چکی ہے ۔

المیہ یہ ہے کہ توانائی بحران سے نمٹنے کے لیے مستقل بنیادوں پرکوئی پالیسی نہیں بنائی گئی کبھی ڈیم تو کبھی کوئلہ کے ذریعے توانائی بحران کے خاتمے کا تذکرہ کیاجاتا ہے تو کبھی روس سے معاہدے کی بات کی جاتی ہے مگر یہ صرف بیانات کی حد تک ہی دکھائی دیتا ہے عملاََ بجلی کی پیداوار بڑھانے کے جو منصوبے ہیں وہ بہت تاخیر کا شکار ہیں۔ اس وقت خود حکومت کے پاس پیسے نہیں ہیں شدید مالی بحران نے ملک کو گھیرلیا ہے جس کے باعث دیگر بحرانات نے بھی سراٹھالیا ہے حکومت کے سامنے بہت سارے چیلنجز ہیں ان سے کس طرح سے نمٹنا ہے کوئی واضح پالیسی نہیں جس پرحکومت کو شدید تنقید کاسامناکرناپڑرہا ہے ۔

تجزیہ کار اور معاشی ماہرین بھی یہی ذکر کررہے ہیں کہ اس وقت ملک کااہم مسئلہ معاشی ہے جس کے لیے اہم اقدامات اٹھانے ضروری ہیں اگر بروقت فیصلے مستقبل کو مدِ نظر رکھتے ہوئے نہ کیے گئے تو مالی بحران کے مزید شدیدہونے کاخطرہ ہے۔ بہرحال حکومت نے جو پابندیاں عائد کی ہیں اسے تاجروں نے رد کردیا ہے۔ جہاں تک صوبوں کا تعلق ہے پنجاب اور کے پی میں اعتراض صرف مرکزی حکومت کے ساتھ کشیدگی کی وجہ سے ہے کیونکہ دونوں صوبوں میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے ۔سیاسی عدم استحکام ہی درحقیقت معاشی بحران کی وجہ ہے جب تک سیاسی جماعتیں آپس میں بیٹھ کر مسائل حل نہیں کرینگی ملک میں بحرانات ختم نہیں ہونگے ۔

ایک دوسرے پر الزام تراشی اور بہتان لگانے کی بجائے ملک کے وسیع ترمفاد میں سوچنا ضروری ہے۔ کراچی، لاہور، اسلام آباد سمیت ملک بھر میں مارکیٹیں رات ساڑھے8 بجے بند نہیں ہور ہیں اور شادی ہالز بھی معمول کے مطابق اپناکام کررہی ہیں ۔

وزیر دفاع خواجہ آصف کا اس توانائی بچت پر کہنا ہے کہ سرکاری اداروں کے بجلی کے استعمال میں 30 فیصد کمی لائی جائے گی۔ اس منصوبے سے سالانہ 62 ارب روپے کی بچت ہوگی۔پلان فوری طور پر نافذ کیا جائے گا۔ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کی روٹین ساری دنیا سے مختلف ہے، یہاں مارکیٹیں اور ریسٹورینٹس ایک دو بجے تک کھلے رہتے ہیں۔ دفاتر کا بھی یہی حال ہے، ہمیں اپنا طرز زندگی بدلنے کی ضرورت ہے، ہماری عادات و اطور باقی دنیا سے مختلف ہیں۔

وفاقی وزیر کاکہناہے کہ ہم گرمیوں میں 29 ہزار میگا واٹ بجلی استعمال کرتے ہیں۔ 17 ہزار میگاواٹ بجلی سردیوں کی نسبت زیادہ استعمال کرتے ہیں، سردیوں میں ہم 12 ہزار میگاواٹ بجلی استعمال کرتے ہیں۔ البتہ جو منطق دیگر دنیا کے مقابلے میں پیش کیاجارہا ہے تو ان ترقی یافتہ ممالک میں نظام قانون کے تحت چلتا ہے ٹیکس عام لوگوں سے وصول نہیں کیاجاتا ، ایک مخصوص طبقہ کو ریلیف فراہم نہیں کیا جاتا ، قومی خزانے کے ذریعے جس طرح سے وزراء کا پروٹوکول اور ان کی سہولیات کا بندوبست کیاجاتا ہے اس کی نظیر دنیا کے دیگر ممالک میں بھی دیکھنے کو نہیں ملتی ہے۔

خدارا! اگر ملک کو بحرانات سے بچانا ہے تو شاہ خرچیاں بھی بندہونی چاہئیں، مخصوص ریلیف بھی بندہونا چاہئے، سرکاری خزانے کا بے دریغ استعمال بھی بند ہونا چاہئے، فضول کے پروٹوکول پر اخراجات کو کم کرنا چاہئے تب جاکر عوام کے پاس دیگر ممالک کے جواز کو سامنے رکھ کر بات کی جاسکتی ہے۔