|

وقتِ اشاعت :   March 15 – 2023

دسمبر 2021ء میں جب گوادر حق دو تحریک نے گوادر میں خواتین کو یکجا کرنے کا عمل شروع کیا تو یہاں کراچی شہر میں بیٹھ کر ہمارے بھی ذہنوں میں بہت سارے سوالوں نے جنم لیا۔

راجی بلوچ وومن فورم کی ٹیم وہاں خواتین اور مردوں کی اس تحریک کے لیے کام کرنے والی خاتون “ماسی زینی” سے ملنے کے لیے نہ صرف بے چین ہوئی بلکہ اس نے اْن تمام خواتین کے ساتھ اپنی یکجہتی کا اظہار کرنے کا ٹھان لی۔ وسائل کی کمی کے باوجود تین لڑکیاں یہاں سے گئیں اور انہوں نے 4, 5 دسمبر 2021ء میں گوادر حق دو تحریک میں بھرپور شرکت کر کے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ یہ گوادر حق دو تحریک ہی تھی جس نے چلتے چلتے “حق دو تحریک بلوچستان” کی صورت اختیار کرلی اور بلاشبہ اس میں لوگوں بالخصوص عورتوں کی شمولیت زیادہ تر ہوتی چلی گئی۔ اسی بات کا تجزیہ کرنے میں پہلی بار حق دو تحریک کی خواتین سے ملنے گوادر ان کے صدف ریسورٹ والے مین دفتر میں گئی۔

خواتین کا مجھ سے ملنے آنا اور اپنے قائد کی بلا جواز گرفتاری پر غصّے کا اظہار ہی ان کا تحریک سے جڑے رہنے کا جوش اور جذبے کو بیان کر رہا تھا۔
دراصل اکتوبر 2022ء سے جاری حق دو تحریک کے احتجاج و دھرنے پر 26 دسمبر 2022ء کو حکومت کی طرف سے ضلعی انتظامیہ، پولیس، فورسز اور دیگر اداروں نے مل کردھاوابولا اور تحریک کو ملیا میٹ کرنے کے لیے تحریک کے سب سے اہم و مرکزی رہنماء حْسین واڈیلہ سمیت تقریباً مزید 20دیگر کارکنان کو گرفتار کیاجس کے بعد ہنگامی اور ناخوشگوار حالات سامنے آنا شروع ہوگئے۔

یہ ہنگامی حالت مسلسل تین دن جاری رہی جس میں خواتین نے بھرپور حوصلے کے ساتھ اپنی شرکت کو یقینی بنایا۔ اِس سبب شہرِ گوادر میں حالات کشیدہ رہے، مشتعل ہجوم نے سرکاری املاک کی توڑ پھوڑ کی۔ جہاں جہاں عام پبلک بھی اپنے ہوٹل یا دکانیں کھول کر بیٹھ جاتے تو عورتیں اْن پر دعویٰ بول دیتیں۔ “ہم اِس دوران تکلیف کے عالم سے دوچار تھے اور بہت سارے لوگ اپنے ہوٹل کھول کے چیزیں بھیجنا شروع کر دیتے تھے، ہم مجبوراً ان کے ہوٹل کی چیزوں کو توڑ کر رکھ دیتے۔ کیونکہ ہم تو انہی کے لیے احتجاج کرنے نکلے تھے۔”
(صائمہ، فرضی نام)
شاید پولیس کا بھی اپنا اس دوران کافی نقصان ہوا ہو گا لیکن یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ اس پورے دورانیے میں خواتین کو کیوں اس قدر تشدد کانشانہ بنایا گیا۔ لوگوں سے بات کرنے پر پتہ چلا کہ 26 دسمبر سے 12 جنوری 2023ء تک انتظامیہ، پولیس اور دیگر ذمہ دار اداروں کا جو رویہ گوادر کے شہریوں کے ساتھ رہا وہ انتہائی آمرانہ و متشدد تھا، گویا گوادر شہر کو فتح کیاجارہا ہو۔ پولیس اور اْسکے مدد گارطاقت کا مظاہرہ کرتے رہے، جو امن و امان قائم رکھنے کی قانونی ذمہ داری سے زیادہ انتقامی کاروائی نظرآتی ہے۔ ایسے کئی واقعات زبان زد عام ہیں کہ گرفتاری و چھاپوں کے دوران شہریوں کو زدوکوب کیا گیا، سامان کی توڑ پھوڑکی گئی اور چْرا بھی لیا گیا۔ یہ طرزِ عمل کسی بھی طور حکومت، حکومتی ادارے، پولیس یا انتظامیہ کے شایانِ شان نہیں تھا۔ “میں اپنے ہاتھ میں لاٹھی لے کر سب سے آگے آگے تھی اور باقی عورتیں میرے پیچھے۔ جب تک پولیس والے آس پاس یا آگے نظر آتے تھے اس وقت تک کوئی ڈر و خوف نہیں ہوتا تھا لیکن جیسے ہی فورسز سامنے سے آتے خوف خود بہ خود کہیں سے گھیر لیتا تھا۔”
(مہناز، فرضی نام)
جہاں ہم رکھوالی کرنے والے اداروں کا نام لیتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتاہے کہ شہروں میں ان کے لیے بھی جمود وخوف چھایا ہوا ہے۔ میرے تجزیہ کے مطابق حق دو تحریک کی خواتین اپنے آپ میں کہیں پختگی محسوس کر رہی تھیں، جو اپنی آپ بیتی بڑے فخریہ انداز میں بیان کر رہی تھیں تو کہیں اپنا دکھ بیان کرتے ہوئے اب تک اس trauma کے سچویشن کو بیان کر رہی تھیں جس سے وہ گزر رہی ہیں۔ ایک ایسی سچویشن جو شاہد معاف نہ کر دینے والا ہو۔ “میں کیسے بول سکتی ہوں کہ وہ اچانک میرے گھر میں گھس آئے اور میرے معصوم بچوں (پوتوں) کو جو نیند میں تھے جوتوں سے مارنا اور پیٹنا شروع کیا۔ ان کا تو کوئی گناہ، کوئی قصور نہیں تھا۔ وہ صرف بارہ تیرہ سال کے تھے۔ اب تک میرے بچے اس درد سے نہیں نکلتے۔ کیسے وہ ان سے قربت کریں گے بھلا۔” (ایک بوڑھی عورت۔ آنسو بہاتے ہوئے)۔ یہاں آواز اٹھانے کا مسئلہ بھی ہے جس نے کسی نہ کسی کو کسی ‘تحریک’ سے جوڑ دیا۔ اب وہ تحریک بذاتِ خود ان کے لیے کتنا فائدہ مند ہے اور کتنا نقصان دہ یہ ایک الگ بحث ہے۔ “جب ہم پہ شیلنگ کی گئی تو میں نے بھاگتے ہوئے پندرہ کے قریب خواتین کو اپنے ساتھ کسی کے گھر میں داخل کیا، مجھے نہیں پتہ تھا کہ وہ کس کا گھر ہے۔ اْس وقت مجھے لگا کہ شاید وہ اس کے گھر کا دروازہ توڑ دیں گے اس لیے باتھ روم میں جانا زیادہ مناسب سمجھا جو کہ شکر ہے کافی بڑھا تھا وہاں نلکا ٹوٹا ہوا تھا میں نے اپنے دوپٹے کے پہلو سے اْسے باندھ دیا اور ہم بچ گئے۔”
(صدف، فرضی نام)
حق دو تحریک کے سربراہ مولانا ہدایت الرحمٰن جو خود 12 جنوری 2023ء کو گرفتاری دینے سیشن کورٹ آئے تھے۔ لیکن مولانا کی پوری ٹیم کے ساتھ ساتھ خواتین ونگ نے بھی ڈسکشن کے دوران اس بات پر اعتراضات اٹھائے کہ مولانا کو بھلا کیوں اس انداز میں گرفتار کیا گیاجیسے کسی مجرم کو گرفتار کیا جاتا ہے؟ اوپر سے خود گرفتاری دینے کے باوجود بھی اْس کے ساتھ سیاسی سلوک کم اور بدلہ لینے کارویہ زیادہ روا رکھا گیا؟ جب اس حوالے سے میں نے خواتین سے پوچھا تو ان کے بقول حق دو تحریک کے گرفتار لیڈر شپ و حمایتیوں کے ساتھ یہاں اچھا سلوک نہیں کیاجاتا بلکہ اْن کو ہمیشہ کم دکھانے کی کوشش کی جاتی ہے، کیونکہ وہ سچ کی بات کرتے ہیں، وہ حق کی بات کرتے ہیں۔ ماسی زینی جو شروع دن سے حق دو تحریک کے ساتھ رہی ہیں انہوں نے اس تحریک کے ساتھ نہ صرف خود جڑے رہنے کی بات کی بلکہ یہ بھی کہا کہ جتنا ہو سکتا ہے وہ اپنے قائد کے لیے آواز بلند کے لیے لوگوں کو اکٹھا کرنے میں ان کا ساتھ دیں گی۔ میرے ایک سوال پر کہ اب تک generation young یا لڑکیوں کو ہم اس تحریک سے کتنا نزدیک پاتے ہیں۔ ماسی زینی نے اس کے لیے بیٹھے کچھ لوگوں کی طرف اشارہ کیا کہ یہ نئی قیادت ہے اور اپنے ہی گھر کی بہو کا بتایا جو اس تحریک سے مکمل طور پر جڑ چکی ہیں۔ لیکن بقول ان کے اِس میں وہ اپنا کردار کم دیکھتی ہیں اور اپنے بیٹے کی رضامندی زیادہ، کیونکہ آج بھی یہاں سماج میں عورت مرد کی اجازت کے بغیر اپنا فیصلہ نہیں لے سکتی۔ جب میں نے اس کی وجہ پوچھی تو ان کا کہنا تھا کیونکہ “عورت جس مرد کے گھر میں کھاتا ہے اسی کی مرضی کے مطابق اپنی زندگی گزارتا ہے، لیکن میرے بیٹے نے اسے منع نہیں کیا یہ ایک اچھی بات ہے۔”
بہت ساری خواتین کونسلرز جو اپنے علاقے کی قیادت کرتی ہیں اْس دوران بیٹھی ہوئی تھیں۔ لیکن وہاں بھی مجھے تین category کی خواتین ملیں۔ ایک وہ جو اپنی قیادت خود سنبھالتی ہیں کیونکہ ان میں وہ قابلیت ہے، دوسری وہ جو ابھی تک کسی کے سامنے بات کرنے سے قاصر ہیں لہٰذا ان کی قیادت کو ٹیم کی باقی خواتین ‘مدد’ کر کے سنبھا ل رہی ہوتی ہیں اور تیسری وہ جو خود بات کر کے اپنی وضاحت دے سکتی ہیں مگر سماج میں انہیں غیر شادی شدہ یا کسی اور وجہ سے ابھی بات کرنے کا ‘درجہ’ نہیں دیا گیا لہذا ان کی قیادت ان کے گھر کی بڑی خاتون کریں گی۔ نئی قیادت میں شامل ایک خاتون سے ملاقات کا کافی اچھا اثر پڑا۔ یہ ان لوگوں میں سے ہے جو وومن لیڈرشپ کے لیے خود کو تیار کر رہی ہیں بس انہیں صحیح راستے اور گائیڈ لائنز دیئے جائیں۔ “میرے شوہر کسی اور پارٹی میں شامل ہیں لیکن جب میں نے مستقل مولانا ہدایت الرحمن کے ڈیمانڈ کو سْنا جو وہ گوادر کے لوگوں کے بارے میں حکومت کے سامنے پیش کر رہے تھے تو میں ان سے بہت متاثر ہوئی۔ مجھے لگا کہ ہمارے اصل لیڈر تو یہ ہیں جو اپنے غریب عوام کے درد کو سمجھتے ہیں۔ جو جانتے ہیں کہ گوادر کے ماہی گیر کو ماہی گیری کرنے کے لیے سمندر میں جانے کی اجازت چاہیے، اسے بارڈر کا مسئلہ ہے کہ جہاں سے ہمارا سامان اور ڈیزل آتا جاتا ہے، ہمارے ماہی گیروں کو ٹرالر مافیا کا مسئلہ ہے، بلوچستان کو مسئلہ ہے تو مسنگ پرسنز کا۔ لہذا میں نے اپنے شوہر سے کہا میں نے اِن کے گروپ میں جانا ہے۔ پہلے تو نہیں مانے، بہت زیادہ اعتراض اٹھائے لیکن بالآخر خود کہا جو بہتر سمجھو۔ آج وہ اپنے پارٹی کے ساتھ اور میں اپنی تحریک کے ساتھ بہ خوشی کام کر رہی ہوں۔ ہم اپنی ذاتی زندگی میں اسے کہیں نہیں لاتے۔ گھر والوں کو بھی انہوں نے کہا ہے کہ وہ مجھے میرے طریقے سے کام کرنے دیں۔
(ماریہ، فرضی نام)
ان خواتین سے ملنے سے پہلے شاید میں بھی کہیں کہیں سوچ کر حیران تھی کہ مولانا ہدایت الرحمن کی وہ کون سی بات تھی جس نے گوادر کی تاریخ کے اوراق کے لیے اتنے سارے بلوچ خواتین کو یکجا باہر نکلنے پر مجبور کیا۔ لیکن اب کے بار 26 فروری 2023ء کو ان کے ساتھ gathering سے مجھے کچھ زیادہ سوچنے کا موقع ملا کہ پاکستانی ریاست جس طرح معیشت کی تباہ حالی کی طرف جارہی ہے، اور حکومتی ادارے اپنے عوام کو ریلیف دینے کے بجائے انہیں غربت کی لکیر سے نیچے کی طرف دھکیلتے چلے جا رہے ہیں یہ سب اسی غم و غصّے کو نکالنے کا مجموعی تاثر دیتے ہیں۔ خواتین سے ملنے پر پتہ چلا کہ وہ اپنے احتجاجی مظاہروں کو کرنے کے لیے اْسی طرح تیار تھیں جس طرح انہوں نے 2021ء اور 2022ء میں کئے تھے لیکن اب کے بار فرق صرف ان کے قائدین کی طرف سے ملنے والے اشاروں کا تھا۔ کیونکہ اب وہ احتجاج خاص کر اپنے لیڈر / قائد مولانا ہدایت الرحمن کی رہائی کے لیے کرنا چاہتی ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ “مولانا ایک پْر امن رہنما ہے۔ جب ہم نے اسے اپنی رہنمائی دی اور آج سے سال پہلے اس نے احتجاج کرنے کا فیصلہ کیا تو اس نے اپنے تمام عوام کے سامنے یہ کہا کہ میرے ساتھ چلنے والے تمام لوگوں کو پْرامن رہنا پڑے گا۔ ہم امن کے ذریعے اپنی جنگ جیتیں گے۔ اسی لیے آج تک ہم بیٹھے ہیں اور کوئی کچھ نہیں کر رہا ہے۔ بس ہمیں انتظار ہے کہ کب ہمیں ہمارے قائد کی طرف سے اشارہ ملے، پھر ہم بھی اپنا احتجاج ان کے لیے کریں گے جنہوں نے پورے عوام کے لیے احتجاج کیا۔”
(ماسی زینی)
حق دو تحریک کی خواتین نے گوادر ڈسٹرکٹ کے تمام شہروں میں دفعہ 144 نافذ ہونے کے باجود بھی فروری 2023ء میں ماہل بلوچ کے لیے اپنی آواز بلند کی۔ لیکن وہ مولانا ہدایت الرحمن کے لیے آواز اٹھانے سے شاید اس لیے بھی گریز کرتے رہے کہ پہلے وہ اپنے مرکزی رہنماء حسین واڈیلہ سمیت اپنے کارکنوں کی رہائی اور ساتھ چاہتے تھے اور اس کے علاؤہ مولانا کو اِس طرح منظرِ عام پر لایا بھی نہیں جا رہا تھا، جب کہ اب مولانا کو مکمل طور پر سامنے لایا گیا ہے جس کی وجہ سے خواتین نے خود اپنا بیان گوادر ہائیکورٹ کے سامنے میڈیا کو انٹرویو کی صورت میں دے دیا۔ یہاں تک کہ گوادر حق دو تحریک کے فیس بک پیج کے علاؤہ مولانا کے پیشی والے دن 19 مارچ کو انہوں نے ‘خواتین’ کے احتجاج کا اعلان بھی کردیا۔ اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ احتجاج بھی پچھلے تمام احتجاجوں کی طرح پْر اثر، پْرجوش اور پْرعزم رہے گی یا اِس میں لوگوں بالخصوص ہر طبقہ فکر کے خواتین کی توجہ اس جانب مرکوز کروانے میں تحریک کے بااثر لوگوں کو مشکل کا سامنا کرنا پڑے گا؟ کیونکہ جنوری 2023ء میں وزیرِِاعلٰی بلوچستان نے ماہی گیروں کے ڈیمانڈ کے پیش نظر اْنہیں سب سے بڑھ کر لیبر ایکٹ کے تحت ‘محنت کش’ کا درجہ دے دیا ہے جس پر اب تک کسی بھی صوبے میں عمل درآمد نہیں کیا گیا۔ ماہی گیروں کو صحت کارڈ اور بوٹ انجن کی سہولتیں فراہم کرنے کا پلان شیئر کیا گیا۔ جس سے ان کے زندگی میں بہت سی آسانیاں پیدا ہوں گی۔ یقیناً حکومتی اداروں سے منسلک پالیسیوں پر عمل درآمد اتنا آسان نہیں ہوتا لیکن چونکہ بات چھیڑی جا چکی ہے جو کہ تحریک کو کمزور کرنے کے لیے بطور حربہ استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ویسے تو ہمارے یہاں عورتوں کو آگے رکھ کر پیچھے دھکیلنے کا کام باآسانی کیا جاتا ہے اگر حق دو تحریک حق پر رہی اور عورتوں کی شمولیت کو یقینی بنائی تو وہ اپنا راستہ خود تلاشیں گی۔