|

وقتِ اشاعت :   March 24 – 2023

کراچی جہاں میں کبھی علاج کے سوا کسی غرض سے نہیں گیا۔اس ملک کے لحاظ سے بہترین انتظامات تھے۔ایمرجنسی میں مریضوں کو ٹھونسا جارہا تھا۔ ہم نے بھی اپنے مریض کو ایک بستر پر لٹا دیا اور ایمرجنسی ڈاکٹر کا انتظار کرتے رہے کچھ دیر بعد ڈاکٹر صاحبہ آ گئیں اور بڑی خوش اسلوبی سے پیش آ ئیں۔فرسٹ ایڈ دینا شروع کیا۔چونکہ کوئی ایک مسئلہ نہیں تھا۔ اس لیے ہم نے ایک جنرل فزیشن کو کال کیا جو کہ اس وقت ہسپتال میں موجود تھا۔ ڈیڑھ دو گھنٹے بعد پروفیسر صاحب آگئے۔معائنے کے بعد ایڈمٹ ہونے کا مشورہ دیا۔ جسے ہم نے فوراً مان لیا۔ چونکہ میرا لباس اور حلیہ دیہاتی تھا۔

اسلئے اسٹاف ہمیںاہمیت نہیں دیتا تھا بلکہ ہمیں ہر بات پر ڈانٹ پڑتی تھی۔ شہریوں کے خیال میں ہم گنوار دیہاتی تھے۔جبکہ میں اپنے آ پ کو ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ تصور کرتا رہا اگرچہ کہیں بھی اسکا اظہار نہیں کیا۔نرسنگ اسٹاف میں صرف ایک جنید نامی لڑکا تھا جسکے رویے اور تعاون سے میں بہت متاثر تھا مجھے ہمیشہ ایسے لوگوں کی تلاش رہتی ہے جو حقیقت میں انسان کہلانے کے مستحق ہیں۔جو دوسروں کے بر عکس ہماری بات سنتا اور ہمیں پیار سے سمجھاتا۔ اس ٹینشن کی صورت میں ایسے ہی لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ مگر یہ بھی بہت بڑی بات ہے کہ کسی نے بھی ہم پر ہاتھ نہیں اٹھا یا ورنہ ہمارے ہاں جو وردی والے ہیں وہ پہلے مارتے ہیں پھرپوچھتے ہیں۔ خیر شاید انکی تربیت میں یہ بات شامل ہے یا پھر ہم انکے ہم وطن نہیں۔
حالانکہ کراچی ایک ایسا شہر ہے جس میں پورا پاکستان بستا ہے۔یہ اور بات ہے کہ مہاجرین انصار سے زیادہ اس پر اپنا حق جتاتے ہیں۔پورے ملک کی تمام بسیں کراچی شہر میں داخل ہوتی ہیں۔صرف بلوچستان والوں کو اسکی اجازت نہیں۔ نیز یہ کہ مسافروں کو شہر میں داخل ہونے پر پولیس والے لوٹتے ہیں۔ جن میں 95 فیصد اپنے علاج کی غرض سے آ رہے ہوتے ہیں۔یہ بھی شاید اس اسلامی جمہوریہ کی ایک جھلک ہے ۔کوئی ہمیں اتنا تو بتائے کہ اس ملک میں کونسی ایسی بات ہے کہ اسے ہم اسلام کا قلعہ کہیں۔ واقعی اس میں بہت سی خوبیاں بھی ہیں جن کو نظر اندازکرنا ناانصافی ہوگی۔

مثلاً دوسرے ممالک کی نسبت یہاں رشوت کم چلتی ہے ،تمام ادارے احسن طریقے سے کام کررہے ہیں۔علاقائی یامسلکی یا لسانی تعصب بالکل نہیں ہے۔ اگر کہیں کوئی برائی ہے بھی تو وہ کسی کی انفرادی حرکت ہوگی۔24گھنٹے مساجد کھلے رہتے ہیں عبادت گزاری یا مسافروں کیلئے۔دھوکہ دہی نہ ہونے کے برابر ہے۔اور یقیناً دنیا کے کسی اور ملک میں اتنے ایماندار، ملنسار ،خدمت گزار ،فرض شناس ،وفادار اور محب وطن لوگ اس تناسبسے ملناناممکن ہیں۔
بات بات میں ،بات کدھر نکل گئی۔ہاں تو میں بخار کے علاج کیلئے گوادر سے آ یاتھا۔ آ ٹھویں دن دولاکھ کا بل ادا کر کے نکلا تو چوتھے دن دوبارہ ہمیں مریض کو ایک اور بڑے ہسپتال میں داخل کرنا پڑا۔اس بات پہ شاید آ پ حیران ہونگے کہ ہم ایک جدید میگا سٹی سے بخار کے علاج کیلئے ایک دوسرے پرانے شہر کیوں گئے ؟ اسکا جواب شاید میرے پاس بھی نہیں۔ البتہ اتنا آ پکو بتا سکتاہوںکہ گوادرکی ترقی بہت ہوئی ہے سڑکوں کا جال بچھا ہوا ہے۔ عمارات دھڑا دھڑ بن رہے ہیں۔جدید ڈیپ سی پورٹ بن چکا ہے۔ہماری حفاظت کیلئے قدم قدم پر چوکیاں بنی ہوئی ہیں۔ کرکٹ کا ایک جدید اسٹیڈیم بنایا گیا ہے اور ایک بین الاقوامی ائیر پورٹ بھی تعمیر ہو چکی ہے۔

لیکن یہاں کے چند لوگ جہالت کی وجہ سے ان چیزوں سے خوش دکھائی نہیں دیتے۔انکا کہنا ہے کہ ہمیں ہسپتال اسکول اورروزگار چاہئے۔میرے خیال میں یا تو یہ بیرونی ایجنٹ اور غدار وطن ہیں یا پھر انتہائی جاہل کیونکہ علاج معالجے کیلئے ہمارے پاس کراچی ہے اور تعلیم کیلئے کوئٹہ اور جہاں تک روزگار کا تعلق ہے۔تو گزشتہ آ ٹھ ہزار سال سے ہم بارانی زمینوں اور سمندر پر انحصارکرتے رہے ہیں۔ اگرچہ سمندر میں ٹرالنگ کی وجہ سے روزگار سست پڑ گیا ہے مگر بلوچستان تو بہت وسیع وعریض ہے۔ہم کہیں بھی بس کر بارش کا انتظار تو کر سکتے ہیں۔کچھ لوگوں کو میں نے یہ مشورہ دیا تو وہ بولے دور دراز کے علاقوں میں تو ہماری جان کو خطرہ ہے۔میں نے پوچھا کس سے ؟ تو وہ لاجواب ہو گئے۔
معاف کیجئے میں پھر بھٹک گیا۔تو ہاں ہم جب اس بہت بڑے ہسپتال پہنچے تو خوش قسمتی سے تھوڑی سی جدوجہد کے بعدایمرجنسی میں بیڈ مل گئی۔اب ایک کے بعد ایک آ یا اور سوالات کی بوچھاڑ کر دی حالانکہ سابقہ ہسپتال میں سارا کچھ کر چکے تھے اور تمام ہسٹری ڈاکومنٹڈ میرے ہاتھ میں تھی لیکن اس طرح لگ بھگ ڈیڑھ گھنٹے بعد ہماری جان چھوٹی اور فرسٹ ایڈ شروع ہوئی ۔تقریباً 12گھنٹے بعد مریض کو وارڈ میں منتقل کیا گیا۔اب ایک اور مسئلہ یہ تھا کہ مریض کو اردو نہیں آ تی تھی اور کسی کو اس کے ساتھ رہنے کی اجازت نہ تھی۔مجھے کہا گیا کہ ہر ڈیڑھ دو گھنٹے بعد آ پ اس سے مل سکتے ہیں۔

اسی طرح ڈیڑھ دو گھنٹے بعدجب میں جاتا تو پتہ چلتا کہ کئی نرس وغیرہ آ ئیں کچھ سمجھے سمجھا ئے بغیر چلی گئیں۔ صبح دس بجے جب میں گیٹ پر پہنچا توگارڈ بولا کارڈ کدھر ہے میں نے کارڈ دکھا یا جو کہ ہماری عادت ہے اپنے علاقے میں روزانہ ہم دسیوں بار کارڈ دکھاتے ہیں۔ اگرگھرکیلئے کوئی ماچس،ٹماٹر یا نمک کی ضرورت پڑ جائے تو چوکی والے کارڈ دکھانے پر جانے دیتے ہیں۔مگر یہاں پر اٹینڈنٹ کارڈ دکھا نے پر بھی مجھے سائڈ پہ کھڑا کیا۔ اور جو پینٹ شرٹ والے تھے ان کو ایسے ہی جانے دیا جارہا تھا۔ مجھے واپس روانہ کیا گیا۔میںنے سوچا جاکے کہیں سے پینٹ شرٹ کا انتظام کرلوں۔تو جب میں نے کسی دوست سے مشورہ کیا تو اس نے کہا کہ پھر آپ کو پوراحلیہ ہی بدلنا ہوگا۔ یہ سن کر میں مایوس لوٹ آ یالیکن غصہ بے انتہا تھا۔جب میں گیٹ پر پہنچا تو کارڈ دکھا نے پر پھر مجھے روکاتو غصے میں آ کر میں نے کارڈ اس کے سامنے پھاڑ کر یہ کہتے ہوئے اسکی طرف پھینک دیا کہ اس کارڈ کے ہونے سے نہ ہونا بہترہے۔چھ دنوں تک مریض ایڈمٹ رہااور میں انتظار گاہ میں انتظار کرتا رہا۔

قسم قسم کے زمانے کے ستائے ہوئے لوگ آ تے اور میں انکاسرسری جائزہ لیتا رہا۔ایک شخص زمان پارک واقعے پر مجھ سے مخاطب ہوکر کہنے لگا۔”ان کو دیکھ ملک کی کیا حالت بنا رکھی ہے۔” میں نے کہا میں سمجھا نہیں “.میرا مطلب ہے ملک تباہ ہورہاہے اور یہ لوگ سیاسی کھیل کھیل رہے ہیں۔جواب میں میں نے کہاکہ ملک ابھی تک تباہ نہیں ہوا ہے فی الحال ان کو کھیلنے دیجئے اگر میرے اور آ پ کے اعمال ٹھیک ہوں تو ہمیں کچھ نہیں ہوگا ورنہ بربادی کیلئے تیار رہیے۔