|

وقتِ اشاعت :   May 14 – 2023

پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ میری گرفتاری کے بعد ملک بھر پر تشدد مظاہروں کی مذمت کرتا ہوں۔

اسلام آباد ہائیکورٹ سے رہائی ملنے کے بعد امریکی میڈیا سکائی نیوز کو اپنے پہلے انٹرویو میں انہوں نے دعویٰ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں جمہوریت سب سے نچلی سطح پر ہے۔ حکومت ”انتخابات سے خوفزدہ“ ہے اور انہیں خوف ہے کہ انتخابات میں تحریک انصاف حکمران اتحاد کا الیکشن میں صفایا کر دے گی۔اسی لیے انہوں نے فیصلہ کیا ہے کہ اگر میں (عمران خان) جیل میں ہوں یا مارا جاؤں تو ہی الیکشن کی اجازت دیں گے۔

انہوں نے انکشاف کیا کہ مجھے جان سے مارنے کی دو بار کوششیں کی گئیں، حراست میں لینے کے بعد میرے گھر پر چھاپہ مارا گیا۔ اور ان کے گھر پر چھاپہ مارا گیا۔

سکائی نیوز کے مطابق عمران خان پر ایک ”قاتلانہ کوشش“ گزشتہ سال نومبر میں ہوئی تھی جب وہ پنجاب میں ریلی کی قایدت کر رہے تھے اور اسی دوران ان پر مسلح شخص نے حملہ کیا جس کے بعد گولی ان کی ٹانگ پر لگی۔

انٹرویو کے دوران گرفتاری کے بعد ملک بھر میں مظاہرین کے بعد پر تشدد مظاہروں کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے ان پرتشدد مظاہروں کی مذمت کی اور کہا کہ ملک میں جمہوریت اس وقت نچلی ترین سطح پر ہے، اس وقت ہماری پاس واحد امید عدلیہ ہے۔

امریکی میڈیا کے مطابق ملک بھر میں عمران خان کی گرفتاری کے بعد شروع ہونے والی پر تشدد مظاہروں میں کم از کم 10 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے ہیں

سابق وزیراعظم نے مزید کہا کہ پہلی بار جب انہوں نے مجھے گرفتاری کے وارنٹ دکھائے تو وہ جیل کے اندر تھے۔ ایسا جنگل کے قانون میں ہوتا ہے، فوج نے مجھے اغوا کر لیا، پولیس کہاں تھی؟ قانون کہاں ہے؟ یہ جنگل کا قانون ہے، ایسا لگ رہا تھا کہ ملک میں مارشل لاء کا اعلان ہو گیا ہے۔

خیال رہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے دو روز قبل رہائی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کے خلاف حقیقی بدعنوانی کا مقدمہ ہے، لیکن عدلیہ ان کی حفاظت کے لیے آہنی دیوار بن گئی ہے۔

واضح رہے کہ 70 سالہ مسٹر خان، جو ایک مقبول اپوزیشن لیڈر ہیں، 2018 اور 2022 کے درمیان وزیر اعظم رہے۔

دوسری طرف وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے عمران خان کی گرفتاری کا دفاع کیا ۔

سکائی نیوز کے ساتھ انٹرویو میں انہوں نے بتایا کہ ایک شخص جس نے عدالت کی خلاف ورزی کی ہے جو قانون کی پاسداری نہیں کرتا، جو عدالتوں سے گریز کرتا ہے اور جو سمجھتا ہے کہ وہ اچھوت ہے اور اس سے پوچھ گچھ نہیں کی جا سکتی، اس کے ساتھ وہی سلوک کیا جانا چاہیے جس طرح ہر شہری کے ساتھ سلوک کیا جاتا ہے۔

انہوں نے ان دعووں کو مسترد کر دیا کہ گرفتاری کے پیچھے سیاسی مقاصد تھے، کیونکہ عمران خان مقبولیت کی اونچائی کی طرف گامزن ہیں۔

وزیر اطلاعات نے کہا کہ اگر ہم اسے گرفتار کرنا چاہتے یا اس کی مقبولیت کی وجہ سے اسے خاموش کرنا چاہتے تو ہم 14 ماہ انتظار نہیں کرتے۔