|

وقتِ اشاعت :   July 19 – 2023

سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کے خلاف درخواستوں پر سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ 9 مئی کو ہونے والے حملہ بلاشبہ  سنگین ہیں، ایسے حملےکبھی نہیں ہوئے لیکن ٹرائل منصفانہ ہونا چاہیے۔

چیف جسٹس عمر عطابندیال کی سربراہی میں 6 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی، بینچ میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس یحیٰی آفریدی، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اور  جسٹس عائشہ ملک شامل ہیں۔

آج سماعت کا  آغاز  ہوا تو  اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے دلائل کا آغاز کیا، ان کا کہنا  تھا کہ میں اپنےتحریری جواب سےمتعلق دلائل دوں گا، تحریری جواب پڑھوں گا کیونکہ 9 مئی کے واقعات کی ٹائم لائن سامنے رکھنا چاہتا ہوں، 9 مئی کو 3 سے7 بجےکے درمیان مختلف علاقوں میں فوجی تنصیبات اور  املاک کونقصان پہنچایا گیا، میانوالی میں ایم ایم عالم کا  استعمال کردہ  جہاز  توڑ  دیا گیا، کورکمانڈر ہاؤس لاہور کو  شدید نقصان پہنچایا گیا، پنجاب میں62 جگہوں پر حملہ کیا گیا جس میں 52 افراد زخمی ہوئے، 9 مئی پر املاک کو ڈھائی ارب روپے کا نقصان پہنچایا گیا، فوجی تنصیبات کو تقریباً ڈیڑھ ارب کا نقصان پہنچایا گیا۔

 اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ 9 مئی کو 149 گاڑیوں کو نقصان پہنچایا گیا۔ اس موقع پر اٹارنی جنرل نے 9 اور 10 مئی کے واقعات کی تصاویر عدالت میں پیش کردیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جی ایچ کیو کے گیٹ نمبر ون پر حملہ کرکے حملہ آور اندر داخل ہوئے، جی ایچ کیو میں فوجی مجسمے کو  توڑا گیا، جی ایچ کیو  راولپنڈی میں آرمی ہسٹری میوزیم پر حملہ کیا گیا، آرمی سگنلز  آفیسرز میس پر حملہ کیا گیا، آرمڈ  فورسز  انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی پر حملہ کیا گیا، آئی ایس آئی حمزہ کیمپ راولپنڈی پر حملہ کیا گیا۔

اٹارنی جنرل نے کورکمانڈر ہاؤس لاہور کی تصاویربھی بینچ کوپیش کردیں۔ ان کا کہنا تھا کہ حملہ آوروں نے 9 مئی کو  پیٹرول بم استعمال کیے۔

چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے سوال کیا کہ کیا مظاہرین نے مسجد پر بھی حملہ کیا؟ اس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ مظاہرین نے 9 مئی کو کور کمانڈر ہاؤس کے اندر مسجد پر بھی حملہ کیا، ایک حملہ آور  نے کورکمانڈر کی وردی پہن لی تھی، فوجی افسران پولیس کی طرح مظاہرین سے لڑنے کے لیے ٹرینڈ نہیں ہوتے۔

چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ کیا  آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ فوجی صرف گولی چلانا جانتے ہیں؟ اس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ  فوجی افسران کو اس طرح کے جتھوں کو منتشرکرنا نہیں سکھایا جاتا،گوجرانوالا میں فوجی تنصیبات اور فیصل آباد میں آئی ایس آئی دفتر  پر حملہ ہوا، پشاور میں ہائی کورٹ کےقریب ایمبولینس جلائی گئیں، بنوں کیمپ پر بھی حملہ کیا گیا، سی ایم ایچ ایبٹ آباد پربھی حملہ کیا گیا، موٹروے ٹول پلازہ بھی جلادیا گیا تھا، تصاویر دکھانے کا مقصد یہ ہےکہ یہ ایک واقعہ نہیں تھا۔

اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ 9  اور  10 مئی کو سوچے سمجھے منصوبے کے تحت حملے کیے گئے، ملک میں دہشت گردی کے واقعات بھی ہوتے ہیں، پورے ملک کے مرکزی شہری علاقوں میں حملے کیے گئے، کور کمانڈر ہاؤس  جلایا گیا اور  وہاں موجود چیزوں کو توڑا اور جلایا گیا، راولپنڈی بار کیس میں سول نوعیت کے جرائم کو آرمی ایکٹ میں لے جایا گیا تھا۔

جسٹس مظاہرنقوی کا کہنا تھا کہ اس وقت حالات مختلف تھے، ملٹری ایکٹ کے تحت ٹرائل کے لیے آئینی ترمیم کی گئی تھی۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ 9 مئی کے واقعات میں جن جرائم کے تحت چارج لگایا گیا یہ آرمی ایکٹ میں آتے ہیں۔

جسٹس مظاہرنقوی نے سوال کیا کہ جن افراد کا آپ ٹرائل کرنا چاہ رہے ہیں وہ سویلین ہیں،کیا آرٹیکل 175/2 کو مدنظر  رکھے بغیر سویلین کا ٹرائل ہوسکتا ہے؟

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ  پوائنٹ یہ ہےکہ آپ کہہ رہے ہیں کہ 9 مئی کے واقعات اپنی نوعیت کے پہلے واقعات تھے، آپ کے مطابق 9 مئی سے پہلے کبھی کسی سویلین نے فوجی تنصیبات پر حملہ نہیں کیا، آئینی سوالات  سے  پہلے کچھ سوالات کا جواب ضروری ہے، جو 102 افراد  فوجی حراست میں ہیں ان کا تحفظ کیسے یقینی بنایا جائےگا؟یہ  نکتہ بھی ہےکہ مجسٹریٹ کے اختیارات  دوسرا کون استعمال کرسکتا ہے؟ فوجداری معاملات کا ماہر نہیں ہوں مگر جو دفعات لگائی گئیں ان کو بھی دیکھنا ہوگا، درخواست گزاریہ نہیں کہہ رہے کہ ان افراد کو رہا کردیں اور سزا نہ دی جائے، صرف یہ بتادیں کہ کیسے ان افراد کا کیس غیر جانبداری سے دیکھا جائےگا؟

چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے سوال کیا کہ کون سی دفعات لگائی گئی ہیں؟ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ  ملزمان کے جرائم سول نوعیت کے نہیں ہیں، ملزمان پر دفعہ302 کا اطلاق بھی کیا گیا ہے۔

جسٹس مظاہرعلی اکبرنقوی نے سوال کیا کہ کیا کسی آرمی افسر کی ڈیتھ بھی ہوئی؟ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ کسی آرمی افسر کے جانی نقصان کی کوئی اطلاعات نہیں ہیں۔

جسٹس مظاہرنقوی کا کہنا تھا کہ جب کسی آرمی افسر کی ڈیتھ نہیں ہوئی تودفعہ302 کیسے لگادی گئی؟اٹارنی جنرل منصورعثمان اعوان کا کہنا تھا کہ یہ دلائل ہدایات پر نہیں دے رہا۔

چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ  بہتر ہوگا اس معاملے پر آپ ہدایات لے لیں۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ  جو آج حقائق بتائے ان کی بنیاد پر کہہ رہا  تھا کہ فل کورٹ بنا کر کیس سنا جائے۔

جسٹس منیب کا کہنا تھا کہ  آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت جرائم کی سزائیں اور نوعیت مختلف ہے۔

جسٹس مظاہرعلی اکبر نقوی نے سوال کیا کہ تفتیش میں پریزائیڈنگ افسر کون ہوگا؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ فیلڈ جنرل کورٹ مارشل پریزائیڈنگ افسر ہوں گے، فیلڈ جنرل کورٹ مارشل ٹرائل میں نہیں ہوں گے، سمری کورٹ مارشل میں فیلڈ کورٹ مارشل ہوتا ہے لیکن وہ مختلف چیز ہے۔

جسٹس مظاہر کا کہنا تھا کہ پہلے یہ سوال ہےکہ سویلین کو آرمی ایکٹ کے دائرے میں لائیں گےکیسے؟

اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ کل بھی عرض کی تھی کہ آرٹیکل 175 تھری کہتا ہے ایگزیکٹو اور عدلیہ الگ ہیں۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سےکہا کہ اب آپ آئینی نکات اٹھا رہے ہیں، 9 مئی کے حقائق کے بعد یہ بتائیں کہ کیسے ٹرائل منصفانہ ہوں گے؟ اگر راولپنڈی بار کیس میں فوجی  عدالتوں کے فیصلے کے خلاف اپیل کا حق تھا تو ٹرائل کے خلاف اپیل کاحق کیوں نہیں ہوسکتا؟ مجھے نہیں یاد کہ اس طرح کے حملے کبھی پہلے فوجی تنصیبات پرہوئے ہوں، بلاشبہ 9 مئی کو ہونے والے حملے بہت سنگین نوعیت کے ہیں، گرفتار افراد ٹرائل میں جانے کو تیار ہیں لیکن ٹرائل منصفانہ ہونا چاہیے۔

جسٹس یحیٰی آفریدی کا کہنا تھا کہ  آپ اپیل کا حق آرمی ایکٹ کے تحت دے دیں، آئینی ترمیم لائیں،عدالت سے اپیل کا حق کیوں مانگ رہے ہیں؟

چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے سوال کیا کہ سیکشن 7 کے تحت ملٹری کورٹس میں سزا کتنی ہے؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ سیکشن7  اور 9 کے تحت فوجی عدالتوں میں سزا 2 سال قید ہے۔

جسٹس مظاہرنقوی کا کہنا تھا کہ  راولپنڈی بار اور لیاقت حسین کیس میں دی گئی گائیڈ لائنز کو آپ پورا کرلیں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیا کلبھوشن جادھو کیس میں ہائی کورٹ میں اپیل کا حق دیا گیا تھا؟ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ 2021 میں آرڈیننس کے ذریعے ملٹری کورٹ کے فیصلے کے خلاف مخصوص کیس میں اپیل کا حق دیا گیا تھا۔

جسٹس عائشہ ملک کا کہنا تھا کہ  آئین ہرشخص کو بنیادی حقوق کا تحفظ دیتا ہے، موجودہ کیس میں بھی بنیادی حقوق کی فراہمی اہم سوال ہے، تمام گرفتار افراد کے بنیادی  حقوق اس پورے عمل میں محفوظ ہونے چاہیے تھے،گرفتار افراد کے بارے میں معلوم ہی نہیں کہ  وہ کہاں ہیں اور نہ ان کے نام پبلک کیےگئے۔

جسٹس منیب کا کہنا تھا کہ  آرمی ایکٹ کو ان لوگوں کے لیے ڈیزائن کیا گیا جن پربنیادی حقوق لاگو نہیں ہوتے، آرمی ایکٹ میں کوئی غلطی نہیں، قانون بنایا ہی مخصوص افراد کے لیےگیا، اب ان افراد کو بھی آرمی ایکٹ کے دائرے میں گھسیٹا جا رہا ہے جن کے بنیادی حقوق کا تحفظ آئین دیتا ہے، آرمی ایکٹ کے ڈیزائن، پیرامیٹرز  اور  ضروریات میں فرق ہے، آپ نےجو ڈیٹا پیش کیا اس کے حقائق، الزامات کی نوعیت بہت سنگین ہے۔

جسٹس مظاہر کا کہنا تھا کہ ملٹری کورٹس فیصلوں میں صرف اتنا ہی لکھتی ہیں کہ جرم ثابت ہوا یا نہیں۔

چیف جسٹس عمرعطا بندیال کا کہنا تھا کہ کیا فوجی عدالتوں میں تفصیلی وجوہات ہوں گی؟ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ اگر سپریم کورٹ حکم دے گی تو تفصیلی وجوہات بھی فوجی عدالتوں کے فیصلے میں شامل ہوں گی۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ  آپ کو مطمئن کرنا ہوگا کہ ٹرائل کے بعد اپیل کا حق ہوگا، جاسوسی کے الزام میں گرفتار کلبھوشن کو ہائی کورٹ میں اپیل کا حق دیا گیا۔

اٹارنی جنرل منصور عثمان نے کہا کہ قانون سازی کے ذریعے وہ ایک “ایلین” کو حق دیا گیا۔جسٹس اعجازالاحسن نے مسکراتے ہوئے ریمارکس دیےکہ  وہ ایلین ہے یا انڈین؟ لفظ ایلین کی توکچھ اور تشریحات ہیں.

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ کو ایک تجویز  دیتے ہیں، آرمی ایکٹ پر ہدایات لے لیں، آرمی ایکٹ ایک مخصوص کلاس پر لگتا ہے، سب پر نہیں لگتا، آپ ایک دو دن کا وقت لے لیں۔

عدالت نے کیس کی سماعت جمعے کی صبح 9:30 بجے تک ملتوی کردی۔