|

وقتِ اشاعت :   September 4 – 2023

کوئٹہ : بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر جان مینگل نے کہا ہے کہ آئین کے مطابق 90روز میں عام انتخابات ہونے چاہیئں اگر کوئی آئین کی خلاف ورزی کرتا ہے تو اس پر آرٹیکل 6 لگانا چاہیے ، صوبے میں جو حالات پیدا کئے جارہے ہیں اس میں کوئی بھی محفوظ نہیں ہے ہم تو کہتے ہیں کہ نگراں کئیر ٹیکر نہیں بلکہ انڈر ٹیکر ہیں ،جلاوطن کیا جلا دنیا کرنے کے حالات پیدا کئے جارہے ہیںْ۔

ہم ان حالات کا مقابلہ کریں گے اور عوام کو تنہا نہیں چھوڑیں گے، ملک میں فالٹ لائنز کا تعین اور ناکامیوں، غلطیوں ،کوتاہیوں کا اعتراف کرکے انہیں ٹھیک نہ کیا گیا تو نہ سیاسی ادارے، عدلیہ ،میڈیا اور نہ ہی اسٹیبلشمنٹ رہے گی ،انتخابات کے حوالے سے سیٹ ٹو سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے لئے مذاکرات جاری ہیں ۔یہ بات انہوں نے پیر کو کوئٹہ میں اپنی رہائشگاہ پر ابراہیم لہڑی ایڈوکیٹ، حمید اللہ محمد شہی، ظفر لونی، اکرم دوست پرکانی، سعید احمد کی بلوچستان نیشنل پارٹی میں شمولیت کے موقع پر پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہی ۔

اس موقع پر میر حمل کلمتی ، میر نذیر بلوچ، غلام نبی مری ، ٹکر شفقت لانگو، حاجی باسط لہڑی، موسیٰ بلوچ سمیت دیگر بھی موجودتھے ۔

سردار اختر جان مینگل نے کہا کہ بلوچستان نیشنل پارٹی کے اقتدار میں نہ ہوتے ہوئے بھی پڑھے لکھے لوگوں کی پارٹی میں شمولیت اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ لوگ سیاسی طور پر خود مختار اور بیدار ہوچکے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں اس وقت جو حالات پیدا کئے گئے ہیں کوئی بھی علاقہ محفوظ نہیں ہے سڑکوں اور گھروں میں ڈکیتیاں ہو رہی ہیں امن و امان کا مسئلہ سنگین ہے وڈھ میں آج اسکو ل ٹیچر جاوید لہڑی کو قتل کیا گیا ۔

صوبے میں اس وقت نگراں نہیں انڈر ٹیکر حکومت ہے کہیں قتل و غار ت ہورہی ہے تو کہیں مسخ شدھ لاشیں مل رہی ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ بی این پی نے ہمیشہ قومی و صوبائی اسمبلی اور ہر پلیٹ فارم پر لاپتہ افراد کی بات کی ہے 2012میں سپریم کورٹ میں پیش ہوئے 2006میں مشرف دور میں جب یہ مسئلہ شروع ہوا تب بھی ڈنکے کی چوٹ پر سریاب کسٹم سے منان چوک تک نعرے لگائے اور بات کی ہمیں لاپتہ افراد کی بات کرنے پر انتخابی مہم میں بھی نقصان اٹھانا پڑا لیکن ہم اپنے موقف سے باز نہیں آئے ۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ یکجہتی اور اتحاد سیاسی مسائل پر ہونا چاہیے سیاسی جماعتیں آپس میں سیٹ ٹو سیٹ ایڈجسٹمنٹ تو کرسکتی ہیں لیکن انکا اتحاد صرف دیر پا مشترکہ معاملات پر ہو سکتا ہے ۔انہوں نے کہاکہ ہم لاپتہ افراد کے مسئلے کو امن و امان، مہنگائی، معیشت سے بڑا مسئلہ تصور کرتے ہیں بی این پی کا مستقل محکوم و مظلوم عوام اور لاپتہ افراد کے اہلخانہ کی دعائوں کی بدولت روشن ہے البتہ مقتدرہ قوتیں کیا چاہتی ہیں۔

ان کے مطابق ہمارا مستقبل کیا ہوگا یہ معلوم نہیں ۔انہوں نے کہا کہ بی این پی نے پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم کی حکومتوں کے سامنے بھی لاپتہ افرادکامسئلہ رکھا پی ٹی آئی سے اتحاد ختم کرنے کی وجہ بھی یہی تھی لیکن جو لوگ اس مسئلے کے ذمہ دار ہیں و ہ اتنے طاقتور اور با اختیار ہیں کہ انکے سامنے عدلیہ بھی بے بس ہے مجھ جیسے غریب اور میاں شہباز شریف کی کیاحیثیت ہے کہ ہم ان کے سامنے اس مسئلے کو رکھتے ۔ انہوں نے کہا کہ گورنر بلوچستان کو استعفیٰ دینے کی خبر میں نے بھی سوشل میڈیا پر ہی دیکھی ہے گورنر وفاق کے نمائندے ہیں جب منتخب وزیراعظم اور وزیراعلیٰ بے بس ہیں تو وہ کیا کر سکتے ہیں گورنر اپنے طور پر لاپتہ افراد کے مسئلے کو حل کرنے کی کوشیں کر رہے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ لاپتہ افراد کے معاملے پر ایک چیف جسٹس اور انکا بیٹا بھی مسنگ ہوتے ہوتے رہ گئے تھے ہمیں معلوم ہے کہ اس مسئلے پر بات کرنے کے کیا نتائج ہوسکتے ہیں۔

ہمارے جھنڈے میں سرخ رنگ انہی تنائج سے مطابقت رکھتا ہے ۔

سردار اختر جان مینگل ایک سوال کے جواب میں کہا کہ بی این پی کے منتخب نمائندوں کو پی ایس ڈی پی میں جو فنڈز ملے ان میں اگر کام معیار کے مطابق نہیں ہوا تو ہم ذمہ دار ہیں منتخب اراکین کو 1985سے فنڈز دینے کا سلسلہ شروع کیا گیا دنیا بھر میں پارلیمان کے نمائندوں کو فنڈز نہیں دئیے جاتے یہ کام بلدیاتی نمائندے کرتے ہیں لیکن اگر یہاں یہ رسم و رواج ہے تو ترقیاتی فنڈز ملنا ہر رکن حق ہے ۔

انہوں نے کہا کہ انتخابات اتحاد کے حوالے سے کمیٹیاں بنائی گئی ہیں ہم نے ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی اور نیشنل پارٹی سے ملاقاتیں کی ہیں جمعیت علماء اسلام سے بھی نشست ہونے والی ہے ۔انتخابات کے حوالے سے سوال کے جواب میں سردار اختر جان مینگل نے کہا کہ انتخابات نہ کروانے کے حیلے بہانے بنائے جارہے ہیں آئین کے مطابق 90روز میں انتخابات ہونے چاہیئں اگر ایسا نہیں ہوتو آئین کی خلاف ورزی کرنے والوں پر آرٹیکل 6لگنا چاہیے ملک میں بہت کم انتخابات ایسے ہوئے جن میں سلیکشن نہیں ہوئی۔

1970میں صاف شفاف الیکشن ہوئے جو ہضم نہیں ہوئے ملک دو لخت ہوااس کے بعد جو الیکشن ہوئے ان میں الیکشن کم اور سیکشن کا عناصر زیادہ تھا،۔

ابھی تک ملک میں ایسا انقلاب نہیں آیا کہ حکمرانوں کو اپنی روش تبدیل کرنی پڑے ہماری جدوجہد میں رکاوٹیں آتی رہتی ہیں۔

لیکن کوئی اگر ہمیں نہ چلنے دے تو ہم اپاہج نہیں ہونگے اور اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے ۔انہوں نے کہا کہ کوئی ہمیں پارلیمانی سیاست سے باز رکھنا چاہتا ہے تو وہ یہ نہ سمجھیں کہ وہ کامیاب ہونگے۔

ہم ملک میں رہتے ہوئے پارلیمان کی سیاست کر رہے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ ملک کی صورتحال گزشتہ 70سال کے تجربات سے بگڑی ہے سیاسی اداروں کو مضبوط ہونے ، عدلیہ کو آزاد ہونے کا موقع نہیں دیا گیا۔

میڈیا پر قدغنیں لگائی گئی ہیں ۔

صاحب اقتدار لوگوں کو ہوش کے ناخن لینے ہونگے تھنک ٹینک بیٹھا کر تعین کرنا ہوگا کہ ملک کے حالات کا ذمہ دار کون ہے۔

فالٹ لائن کی نشاندہی کئے بغیر مسائل حل نہیں کئے جاسکتے ۔انہوں نے کہا کہ جب تک ناکامیوں ،کوتاہیوں ، کا اعتراف ،گناہ گار کو گناہ گار نہیں کہاجاتااور ڈر خوف سے خاموشی نہیں توڑی جاتی اگر یہ ملبہ گر ا تو نہ میڈیا، عدلیہ، سیاسی ادارے اور نہ ہی اسٹیبلمشنٹ رہے گی ۔ایک سوال کے جواب میں سردار اخترجان مینگل نے کہاکہ حالات پیدا کئے جارہے ہیں کہ مجھے جلا وطن یا جلا دنیا کیا جائے مگر ہم مقابلہ کریں گے ہم اپنے سیاسی کارکنوں اور عوام کے ساتھ جیل میں بھی رہے ہیں ہم اپنے عوام کو کبھی تنہانہیں چھوڑیں گے ۔انہوں نے کہا کہ 450لاپتہ افراد بازیاب ہوئے مگر 1500کے قریب لاپتہ کئے گئے آج کوئی ایسا دن نہیں جب لوگ لاپتہ نہیں ہورہے ہیں ۔