اسلام آباد: نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے کہا ہے کہ الیکشن کی تاریخ دینے کا اختیار صدر کے پاس نہیں ہے، الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے بعد الیکشن کی تاریخ دینے کا اختیار الیکشن کمیشن کا ہے۔
آخری مرتبہ اس حوالے سے جو قانون سازی کی گئی وہ یہی تھی کہ اختیار صدر سے لے کر الیکشن کمیشن کو دے دیا جائے۔ الیکشن کی تاریخ پر وکلاء تحریک اور اس سے سول ان ریسٹ پیدا ہونے کے حوالے سے نگراں وزیراعظم کا کہنا تھا کہ میں نہیں سمجھتا یہ معاملہ سول انتشار کی طرف جائے گا۔
میرا نہیں خیال کہ کوئی بڑی ہلچل ہوگی۔انہوں نے کہا کہ تعلقات ’مناسب ہیں‘۔ لیکن الیکشن کی تاریخ کے حوالے سے ہماری کوئی ملاقات نہیں ہوئی۔ میرا فوکس معیشت، دہشتگردی اور خارجہ پالیسیز پر ہے۔
نجی ٹی وی کو انٹرویو میں وزیراعظم نے کہاکہ غیر ضروری طور پر انتخابات کو کھینچا نہیں جائے گا، حلقہ بندیاں مکمل ہونے کا انتظار ہے، اہم بات یہ ہے کہ ’حلقہ بندیاں ٹھیک ہوں۔
ان میں کسی ایک سیاسی جماعت کا رنگ نظر نہ آئے‘، ان میں مینوورنگ قدرے کم ہو۔انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو ’پریشر نہیں رکھنا چاہیے، انہیں اپنا کام درست رکھنا چاہئے‘۔
وزیراعظم ہاؤس اور وفاقی کابینہ الیکشن کمیشن کا حصہ نہیں ہے وہ ایک آزاد ادارہ ہے۔
جسے اپنے پلان کے مطابق کام کرنا چاہیے۔ان کا کہنا تھا کہ حلقہ بندیوں کے حوالے سے آئین پاکستان کی میں پوزیشن ہے وہی پوزیشن میری ہے۔
نگراں وزیراعظم نے کہا کہ اگر انہیں کوئی نئے خدشات پیدا ہوئے ہیں تو اس کا علم نہیں۔
سیاسی جماعتیں اور سیاسی رہنما مختلف پوزیشنز لیتے رہتے ہیں، ان میں سے کچھ درست ہوتی ہیں ، کچھ نہیں ہوتیں۔آصف علی زرداری میثاقِ معیشت کی تجویز پر ان کا کہنا تھا کہ ’یہ بہت خوبصورت تجویز ہے‘، تمام سیاسی جماعتوں کو اس پر بیٹھ کر بات کرنی چاہیے۔
میثاق معیشت میری اپنی ذاتی خواہش بھی ہے اور میں ووٹ اس جماعت کو دوں گا جو معاشی بحالی کا پلان لے کر آئے گی۔ نگراں وزیراعظم نے کہا کہ 9 مئی کو کچھ ایسے واقعات رونما ہوئے جرم تھے، ریاست بدلہ نہیں لے گی بلکہ انصاف کرے گی۔
نگراں وزیراعظم نے کہا کہ ’سیاسی بات چیت میں پرامن شرکت، چاہے وہ علی وزیر صاحب ہوں یا کوئی اور صاحب ہوں، یہ ان کا بنیادی حق ہے، جمع ہونے کا حق، اظہار کا حق‘۔انہوں نے کہا کہ کوئی بھی اگر ان کے ان حقوق کا مذاق بناتا ہے چاہے ریاست ہی کیوں نہ ہو تو یہ مناسب رویہ نہیں ہے۔
لیکن ان حقوق کو بنیاد بنا کر اگر آپ تفرقہ یا افراتفری پیدا کرنے کی کوشش کریں گے تو اس کی بھی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے۔کیا ریاست کو بغاوت کے الزامات عائد کرنے چاہئی?؟ اس کا جواب دیتے ہوئے نگراں وزیراعظم نے کہا کہ ’ریاست نے اگر قانون بنا دیا ہے تو یہ ریاست کے پاس اختیار ہے ۔
کہ وہ اس کو نافذ کرے‘۔اگر سپریم کورٹ نیب ترامیم کو اسٹرائیک ڈاؤں کر دیتی ہے ۔
تو کیا نگراں حکومت ریویو پر جائے گی؟ اس حوالے سے نگراں وزیراعظم نے کہا کہ ظاہر سے اس پر وزارت قانون کی جانب سے سوچ بچار کیا جائے گا ۔
اور جو وزارت قانون کی تجویز ہوگی کابینہ اس کے مطابق فیصلہ کرے گی، لیکن اگر ایسا ہوا تو امکانا ہیں کہ ریویو (نظر ثانی کی اپیل) میں جایا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ نگراں حکومت وہ پاورز استعمال کر رہی ہے۔
جو جاتی ہوئی پارلیمنٹ اس کو دے گئی ہے، قانون سازی پارلیمنٹ کا بنیادی اختیار ہے۔ان کا کہنا تھا کہ غیر قانونی افغان مہاجرین کے خلاف کریک ڈاؤن ہوگا۔سعودی ولی عہد کہ ممکنہ پاکستان آمد پر ان کا کہنا تھا کہ محمد بن سلمان لمبے دورانیے کے لئے پاکستان آئیں گے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ آئی ایس آئی چیف کی ایکسٹینشن قومی سلامتی کا معاملہ ہے۔ ایکسٹینشن پر تمام متعلقہ لوگوں کی رائے جان کر فیصلہ کروں گا۔انہوں نے بتایا کہ صدر مملکت سے الیکشن کی تاریخ پر بات نہیں ہوئی، الیکشن میں غیرضروری تاخیر نہیں ہوگی۔نگراں وزیراعظم نے کہا کہ فوجی بجٹ میں اضافہ ہونا چاہئے۔