|

وقتِ اشاعت :   September 24 – 2023

وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی نے اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے کے معاملے پر دوٹوک انداز میں واضح کیا ہے کہ پاکستان اپنے قومی مفادات اور فلسطینی عوام کے مفادات کو مدنظر رکھ کر ہی اس بارے میں کوئی فیصلہ کرے گا۔

اسرائیلی وزیرخارجہ ایلی کوہن کی اس بات پر کہ ان کی کئی مسلم ممالک کے ایسے رہنماؤں سے ملاقات ہوئی ہے جنہوں نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا جس پر پاکستانی سفارت کار نے دوٹوک انداز سے واضح کیا کہ اسرائیلی وزیرخارجہ کی حالیہ کچھ عرصے میں کسی پاکستانی اہلکار سے ملاقات نہیں ہوئی۔

ماضی پر نظر ڈالیں تو سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں پاکستان کے وزیرخارجہ خورشید قصوری نے اسرائیلی وزیرخارجہ سیلون شیلوم سے ترکی کے شہر استنبول میں 2005 میں ملاقات کی تھی۔

یہ پہلی ملاقات تھی جو میڈیا کے سامنے ہوئی اور یہ ترکی کے صدر  اردوان کی کوششوں کا نتیجہ تھی تاہم اس کے بعد وزرائے خارجہ یا کسی اور سطح پر ایسی ملاقاتیں میڈیا پر سامنے نہیں آئیں۔

پاکستان کے ایک سینیئر سفارت کار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر واضح کیا کہ امید ہے اس بارے میں پاکستان کو کوئی فیصلہ مستقبل قریب میں نہ کرنا پڑے۔

اسرائیلی وزیراعظم کے اقوام متحدہ میں خطاب کے دوران اس بیان نے کہ سعودی عرب کے ساتھ امن کا مطلب مسلم دنیا اور یہودیوں کے درمیان امن ہے نے ایک نئی بحث چھیڑدی ہے کہ امارات، بحرین، مراکش اور سوڈان کے بعد مزید کون سے مسلم ممالک اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے کا معاہدہ کریں گے۔

خیال رہے کہ اسرائیلی وزیر خارجہ ایلی کوہن نے دعویٰ کیا ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ چھ یا سات مسلم ممالک اسرائیل کو تسلیم کرلیں گے۔

بین الاقوامی امور کے ماہرین کا خیال ہے کہ شاید لیبیا کا نام لینے سے پیدا ہونے والی صورتحال کے سبب ایلی کوہن نے ان سات ممالک کا نام نہیں بتایا۔