|

وقتِ اشاعت :   November 10 – 2023

اسلام آباد: سپریم کورٹ کے جج جسٹس مظاہر نقوی نے اپنے خلاف دائر ریفرنسز سننے والی جوڈیشل کونسل میں چیف جسٹس فائز عیسیٰ سمیت دو ججز کی شمولیت پر اعتراض کردیا۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق سپریم جوڈیشل کونسل میں جسٹس مظاہر نقوی کے خلاف دس کے قریب شکایات جمع ہیں، آج جسٹس مظاہر نقوی نے سپریم جوڈیشل کونسل کی تشکیل پر اعتراضات اٹھا دیے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ جسٹس مظاہر نقوی کی جانب سے اعتراضات سپریم جوڈیشل کونسل میں جمع کرا دیے گئے ہیں، جسٹس مظاہر نقوی نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس سردار طارق اور جسٹس نعیم اختر افغان کی کونسل میں شمولیت پر اعتراض اٹھا یا ہے۔

 

ذرائع نے یہ بھی بتایا ہے کہ جسٹس مظاہر نقوی نے سپریم جوڈیشل کونسل سے ریفرنس اور شواہد کی نقول بھی مانگ لیں اور اس حوالے سے سپریم جوڈیشل کونسل میں تحریری جواب جمع کرایا ہے جو کہ 18 صفحات پر مشتمل ہے۔

جسٹس مظاہر نقوی نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس میں سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ شفاف ٹرائل جج کا حق ہے اس لیے مجھے جوڈیشل کونسل کا جاری کردہ شوکاز نوٹس بنیادی حقوق کے منافی ہے،جوڈیشل کونسل کی کارروائی کی پریس ریلیز میری رائے کے بغیر جاری کرنے سے میرے بنیادی حقوق متاثر ہوئے۔

جسٹس مظاہر نے کہا ہے کہ جوڈیشل کونسل کسی جج کے خلاف اس وقت کارروائی کر سکتی ہے جب متفقہ فیصلہ ہو، جوڈیشل کونسل اکثریتی فیصلے کے ذریعے کسی جج کے خلاف کارروائی کا اختیار نہیں رکھتی، چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس سردار طارق مسعود کونسل کے رولز کو غیر آئینی قرار دینے کی رائے دے چکے ہیں، میرے اوپر لگائے گئے الزامات کی تصدیق کیے بغیر مجھے شوکاز نوٹس بھیجا گیا، کونسل اجلاس میں میرے خلاف شواہد کا جائزہ نہیں لیا گیا۔

انہوں نے کہا ہے کہ بطور جج سپریم کورٹ تعیناتی کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مشرف فیصلے کے سبب جوڈیشل کمیشن میں میری تعیناتی کی مخالفت کی، تین اپریل 2023ء کو جسٹس قاضی فائز اور جسٹس سردار طارق نے سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کو خط لکھ کر میرے خلاف کارروائی چلانے کی بات کی، شکایات میں مجھ پر مبینہ آڈیو کا بھی حوالہ دیا گیا لیکن مبینہ آڈیو کی کبھی تصدیق نہیں کرائی گئی۔

جسٹس مظاہر نے موقف اختیار کیا کہ مبینہ آڈیوز کے لیے کمشین تشکیل دیا گیا جس میں چیف جسٹس قاضی فائز اور جسٹس نعیم افغان شامل تھے، دونوں معزز جج صاحبان کو میرے خلاف شکایت نہیں سننی چاہیے، جسٹس سردار طارق مسعود نے میرے خلاف شکایات پر رائے دینے میں جان بوجھ کر تاخیر کی، جسٹس قاضی فائز کے خلاف ریفرنس کی کھلی عدالت میں سماعت کے دوران جسٹس سردار طارق مسعود اور جسٹس اعجاز الاحسن پر اعتراض کیا گیا اور دونوں جج صاحبان عدالتی بنچ سے الگ ہو گئے تھے۔

انہوں نے کہا کہ میرے خلاف لگائے گئے تمام الزامات بے بنیاد اور من گھڑت ہیں، مجھے شکایات اور دیگر مواد تک رسائی نہ ہونے کے سبب میں مفلوج ہوں، مجھے مکمل ریکارڈ فراہم کیا جائے، میرے خلاف جوڈیشل کونسل میں بھیجی گئی شکایات سیاسی مقاصد کے تحت ہیں، میرے خلاف شکایات میں شفافیت کا فقدان ہے اور غیر قانونی ہے۔

جسٹس مظاہر نے کہا کہ جوڈیشل کونسل میں شامل ممبران میرے بارے میں جانب دار ہیں، جسٹس قاضی فائز عیسی اور جسٹس نعیم اختر افغان آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کا حصہ ہیں، جن آڈیو لیکس کی انکوائری کے لیے کمیشن بنایا گیا وہی میرے خلاف شکایات کا بھی حصہ ہیں، انصاف کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کے ممبران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس نعیم اختر کو میرے خلاف بنائی گئی جوڈیشل کونسل کا حصہ نہیں ہونا چاہیے، سپریم جوڈیشل کے جاری اظہار وجوہ کا نوٹس بھی جانب دار ہے جس کا جواب نہیں دیا جا سکتا۔