الیکشن کمیشن نے پاکستان تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن پر پی ٹی آئی کو نوٹس جاری کرتے ہوئے درخواستوں پر سماعت 12 دسمبر تک ملتوی کر دی۔
الیکشن کمیشن میں پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات کے خلاف درخواستوں کی ابتدائی سماعت چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی سربراہی میں 5 رکنی کمیشن نے کی، 5 رکنی کمیشن نے اکبر ایس بابر، نورین خان، محمود احمد، زمان خان، یوسف علی اور دیگر کی درخواستوں پر سماعت کی۔
درخواست گزاروں کی جانب سے مؤقف اختیار کیا گیا کہ پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات سے پہلے کوئی شیڈول نہیں دیا گیا، ووٹرز فہرستیں بھی جاری نہیں کی گئیں، انتخابات سے متعلق پی ٹی آئی مرکزی سیکرٹریٹ میں کوئی سرگرمی نہیں ہوئی، پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات قانون و پارٹی آئین کے مطابق نہیں کرائے گئے لہذا انٹراپارٹی انتخابات کو کالعدم قرار دیا جائے۔
اکبر ایس بابر کے وکیل الیکشن کمیشن کے سامنے پیش ہوئے اور کہا کہ آئین اور قانون بڑا واضح ہے اس لیے میں یہاں پیش ہوا، الیکشن کمیشن نے پارٹی آئین کے تحت انتخابات کا حکم دیا تھا، انٹرا پارٹی انتخابات کیلئے ووٹرلسٹ نہیں بنی، نامزدگی کا طریقہ کار بھی نہیں تھا، پارٹی آئین میں الیکشن پروگرام کا ذکر نہیں ہے۔
وکیل اکبر ایس بابر کا کہنا تھا پارٹی الیکشن کمشنر نے ڈیٹا بیس اپنے پاس رکھا ہوا ہے، کمیشن کی پاور ہیں کہ ایسے انتخابات کروانے والے کو ہٹا کر نئے الیکشن کروائے، ہم پارٹی آفس گئے اور الیکشن کی مکمل تفصیلات مانگیں۔
ممبر الیکشن کمیشن نے پوچھا کیا آئین میں ووٹر لسٹ مانگنا یا اس سب کا طریقہ کار ہے؟ جس پر وکیل اکبر ایس بابر نے بتایا کہ آئین میں ایسی کوئی گنجائش نہیں لیکن طریقہ کار یہی ہوتا ہے۔
ممبر کمیشن کا کہنا تھا آئین میں لکھا ہے سب ممبر الیکشن کیلئے اہل ہیں تو آپ نے وہاں کیوں نہیں کہا؟ وکیل اکبر ایس بابر نے بتایا ہم نے انٹرا پارٹی انتخابات کیلئے درخواست فارم مانگا لیکن مہیا نہیں کیا گیا۔
راجہ طاہر نواز عباسی کے وکیل نے کہا یاسمین راشد سمیت 2 رہنما جیل میں ہیں، انہوں نے کیسے درخواست دی یا ان سے دستخط لیا گیا؟ جس پر ممبر کمیشن نے پوچھا جیل سے درخواست پر دستخط لینے کا کوئی تو طریقہ کار ہو گا۔
وکیل راجہ طاہر عباسی کا کہنا تھا جیل میں رہنے والے منتخب ہوئے، پشاورکے پاس نامعلوم جگہ پر انتخابات کروائے گئے، کوئٹہ سے پارٹی ممبر آج الیکشن کمیشن میں پیش ہو رہی ہیں، وہ بھی الیکشن میں حصہ لینا چاہتی تھیں۔
انہوں نے مزید کہا آئین میں لکھا ہے کہ ہر شخص کو الیکشن میں حصہ لینے کا موقع ملنا چاہیے، پورے پراسس کیلئے جعلی طریقہ اختیار کیا گیا، اس الیکشن کو کالعدم قرار دیا جائے۔
اکبر ایس بابر کا کمیشن کے سامنے کہنا تھا ماضی میں ہزاروں لوگوں نے نامزدگی فارمز جمع کروائے تھے، جسٹس وجیہہ الدین نے الیکشن میں غلطیوں کی نشاندہی کی تھی، اس کے بعد لوگوں کو قصوروار ٹھہرا کر پارٹی سے نکالا گیا، اس کے بعد کے انتخابات آپ کے سامنے ہیں، آگے کچھ نہیں ہو سکا۔
الیکشن کمیشن میں بطور ثبوت پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات سے متعلق ویڈیوز پیش کر دی گئیں، پی ٹی آئی جی 8 آفس اسلام آباد میں اکبر ایس بابر کے جانے کی ویڈیو الیکشن کمیشن میں چلائی گئیں۔
اکبر ایس بابر نے الیکشن کمیشن بینچ کو ویڈیو کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا ہم پی ٹی آئی سیکرٹریٹ گئے، کاغذات نامزدگی اور ووٹر لسٹیں مانگی لیکن کہا گیا سابق پارٹی رہنما کو برقرار رکھا ہے۔
اکبر ایس بابر کا کہنا تھا ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے قبول ہے قبول ہے کہہ کر انٹرا پارٹی انتخابات کو مکمل کہہ دیا گیا، جو ویڈیو سیکرٹریٹ میں بنائی گئیں وہ ہماری ہیں۔
ممبر الیکشن کمیشن نے پوچھا آپ نے ویڈیو کیوں بنائیں اور یہ دوسری پشاور کی ویڈیو کس نے بنائی؟ جس پر اکبر ایس بابر نے بتایا ہم نے اس لیے سیکرٹریٹ میں ویڈیو بنائی کیونکہ ہم ثبوت رکھنا چاہتے تھے، پشاور کی ویڈیو میڈیا کی ہے، دیکھا جا سکتا ہے کہ کیسے قبول ہے کہہ کر الیکشن کروا دیا گیا۔
الیکشن کمیشن کے ممبر نے دوبارہ سوال پوچھا کہ ویڈیو بنانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ جس پر اکبر ایس بابر نے کہا پی ٹی آئی ویب سائٹ پر ڈیٹا نہ ملا اس لیے بطور ثبوت سینٹرل سیکرٹریٹ کی ویڈیو بنائی، کمیشن چاہے تو ویڈیو کی فارنزک کروا لے، اس سے قبل بھی ویڈیو ثبوتوں پر فیصلے ہوئے ہیں۔
ممبر الیکشن کمیشن نے کہا یہی انٹرا پارٹی الیکشن ہیں تو ٹھیک ہے ورنہ اس کے نتائج خوفناک ہوں گے، آپ دوبارہ انتخابات کو تو بھول جائیں، ہم نے شفاف انتخابات کا کہا تھا۔
درخواست گزار محمود خان الیکشن کمیشن کے سامنے پیش ہوئے اور کہا میں پارٹی کا پرانا ممبر اور سابق چیئرمین کا ساتھی رہا ہوں، میں نے الیکشن خود لڑنا تھا لیکن کوئی کاغذات نہیں ملے۔
الیکشن کمیشن نے انٹرا پارٹی الیکشن پر پاکستان تحریک انصاف کو نوٹس جاری کرتے ہوئے درخواستوں پر سماعت 12 دسمبر تک ملتوی کر دی۔