نگران وفاقی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے کہا ہے کہ طاقت کے استعمال کا اختیار صرف ریاست کو حاصل ہے۔
اسلام آباد میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ طاقت کے استعمال کا اختیار صرف ریاست کو حاصل ہے, کسی نے تشدد کا راستہ اختیار کیا تو اس کا ہاتھ کاٹنا پڑے گا، دہشت گردی کے خلاف سیکیورٹی فورسز کی قربانیاں قابل ستائش ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سازشی عناصر نے ہمیشہ پاکستان کو تقسیم کرنے کی کوشش کی، نسلی تعصبات سےنکل کر پاکستان کو مقدم رکھنا ہوگا، پاکستان سے دہشت گردی کے ناسور کو ختم کیاجائےگا۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستانیوں کو مختلف بنیادوں پر تقسیم کیا گیا، پاکستان کے خلاف حساس معلومات کی بنیاد پر منظم جنگ شروع کی گئی ہے، سیکیورٹی فورسز نے جس بہادری سے دہشت گردی کے چیلنج کا مقابلہ ہے، دنیا کی تاریخ میں اس کی مثالیں کم ملتی ہیں۔
وزیر داخلہ نے کہا کہ 1947 کے بعد میری شناخت صرف پاکستان ہے، نہ میں بلوچ ہوں، نہ پٹھان اور نہ پنجابی، میں صرف پاکستانی ہوں اور مرتے دم تک پاکستانی ہی رہوں گا۔
سرفراز بگٹی نے کہا کہ مذہب کے نام پر ملک کی سلامتی کو چیلنج کیا گیا جسے مذہبی دہشت گردی کا نام دیا گیا، دہشت گردی کے ناسور کو ملک سے ختم کیا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مسئلہ ’اپیزمنٹ پالیسی‘ ہے، ہمارے اندر وہ مستقل مزاجی نہیں ہے، ہمیں جیتی ہوئی جنگ دوبارہ لڑنی پڑی، صرف اس وجہ سے کہ ہم مستقل مزاج نہیں رہے، اس میں ہمارا، میری کلاس کا قصور ہے، ہم کنفیوز ہیں، ہمیں اس غیر واضح صورتحال سے نکلنا پڑے گا۔
نگران وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ ملک کو اس چیلنج سے نکالنے کے لیے اپنے ذہن کو کلیئر رکھنا پڑے گا کہ ’تشدد‘ کا اختیار صرف ریاست کے پاس ہے، جس کسی نے کسی بھی وجہ سے تشدد کا راستہ چناتو ہمیں اس ہاتھ کو کاٹنا پڑے گا، اس ہاتھ کو ہمارے گریبانوں تک نہیں آنے دینا۔
سرفراز بگٹی نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف صرف فورسز کی جنگ نہیں ہے، یہ جنگ پارلیمنٹ، عدلیہ، دانشوروں اور میڈیا نے لڑنی ہے، یہ جنگ کے ریاست کے تمام ستونوں کے خلاف ہے اور اسے سب نے مل کر لڑنا ہے۔
وزیر داخلہ نے کہا کہ بلوچستان خضدار میں کل سی ٹی ڈی کا ایک بہادر افسر شہید کیا گیا، اس سے کچھ عرصے قبل اس کا ایک اور ساتھی ایس ایچ او شہید کیا گیا، جہاں ان کو دہشت گردی کا چیلنج ہے، جہاں ان کو دہشت گرد مار رہے ہیں، وہاں پر ہماری معزز عدلیہ کہتی ہے کہ ان پر ایف آئی آر درج کی جائیں، یہ لمحہ فکریہ ہے، ہمیں سوچنا پڑے گا کہ ہم یہ جنگ کس طرح لڑ رہے ہیں۔