|

وقتِ اشاعت :   January 1 – 2024

لاہور: نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے کہا ہے کہ مجھ پر بار بار تنقید کرنے والے پہلے اپنے گریباں میں جھانکیں، میرا مینڈیٹ نہیں کہ سوشل میڈیا پر تنقید کرنے والوں کو جواب دوں،قانون اس لیے نہیں ہوتا کہ دہشتگردوں کو چھوڑ دیا جائے،

قانون کا مقصد دہشتگردوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا نام ہے، مجھے طعنے نہ دیں کہ آپ کو بلوچ یاد رکھیں گے،میں تو ویسے ہی جانے والا ہوں جانے کے بعد کھل کر بات کروں گا،90ہزار لوگ قتل ہو گئے ہیں اور 9لوگوں کو سزا نہیں ہوئی،

مسلح تنظیمیں پاکستان توڑنے کیلئے سازشیں کر رہی ہیں،

احتجاج کی آڑ میں دہشتگردوں کو سپورٹ کرنے والوں کو قبول نہیں کریں گے، 9مئی کو احتجاج کرنے والوں کابھی یہی ایشو تھا وہ قانون کے دائرے سے باہرآگئے تھے،

مجھے خوشی ہوئی کہ پنجاب کے لوگوں کو بلوچستان کے لوگوں سے ہمدردی ہے،احتجاج کرنے والے بلوچ خاندانوں کے معاملے کو غلط رنگ دیا جا رہا ہے،ریاست کی لڑائی بلوچوں سے نہیں بلکہ دہشتگرد تنظیموں سے ہے،دہشتگردی کی نئی لہر کا پورے زور سے مقابلہ کیا جا رہا ہے،

پوری طرح کوشاں ہیں کہ انتخابات کا انعقاد پر امن ماحول میں ہو۔ ان خیالات کا اظہار انہوںنے لاہور میں کاروباری سہولت مرکز کے دورے کے دوران میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا ۔

نگران وزیر اعظم انوارا لحق کاکڑ نے کہا کہ

افسوس کا مقام ہے کہ بلوچ خاندانوں کے معاملے کو حقائق کے برعکس پیش کیا جا رہا ہے

کیونکہ بلوچ تو ریاست پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں،بلوچستان کے لوگوں کے قتل میں دہشتگرد اور مسلح عسکریت پسند ملوث ہیں جو ڈاکٹروں، وکلا ء اور اساتذہ کو مار رہے تھے،ریاست ان دہشتگردوں کے ساتھ پوری طاقت سے لڑے گی کیونکہ انہیں لوگوں کو مارنے کا لائسنس نہیں دیا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ

احتجاج سب کا آئینی حق ہے لیکن یہ احتجاج قانون کے دائرے میں رہ کر ہونا چاہیے،9مئی پر ہمارا جھگڑا کیا ہے وہ بھی احتجاج کر رہے تھے

لیکن جب وہ دائرہ سے باہر جاتے ہیں تو پھر قانون کا جو نفاذ کرنے والے لوگ ہوتے ہیں وہ اس دائرے میں اس کو واپس لے کر آتے ہیں۔ نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے میڈیا کے چند افراد کی تنقید کا جواب اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ

وہ بلوچ خاندانوں سے نہیں لڑ رہے تھے،ریاست کی لڑائی بلوچوں سے نہیں بلکہ دہشتگرد تنظیموں سے ہے۔ یہ دہشتگرد’’را‘‘سے پیسے اور فنڈنگ لے رہے تھے اور صوبے میں لوگوں کو قتل کر رہے تھے، 98 فیصد بلوچ پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں،

ایک ماحول بنادیا ہے کہ وزیر اعظم بلوچستان کے لوگوں کی بات نہیں سن رہے ہیں، ڈھٹائی کے ساتھ گفتگوکرنے سے مسائل کا حل نہیں نکلے گا،90 ہزار افراد قتل ہوگئے، 9ملزمان کو سزا نہیں ہوئی، مسلح تنظیمیں ملک توڑنا چاہتی ہیں، یہ ریاست اور مسلح تنظیموں کے درمیان جھگڑا ہے، یہ تنظیمیں بھارت کی فنڈنگ سے چل رہی ہیں،

ملک میں کریمینل جسٹس سسٹم میں بہتری کی ضرورت ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ آزادی اظہار پر کوئی پابندی نہیں ہے،جعلی اور جھوٹی ہمدردی کے بجائے صحافی حقائق پیش کریںآزادی اظہار رائے پر کوئی پابندی نہیںہے،تحقیقاتی صحافی بلوچستان کے مسائل پر کا م کریں کون انہیں روکتا ہے۔

ڈی آئی خان میں جے یو آئی(ف)کے امیر مولانا فضل الرحمان کی گاڑیوں پر مبینہ فائرنگ کے واقعے کے حوالے سے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ یہ امر باعث تشویشناک ہے،

حکومت خیبرپختونخوا ہ کے جنوبی علاقوں میں سکیورٹی خطرات کا جواب تمام تر دستیاب وسائل کے ساتھ دے رہی ہے۔انتخابات کی تاریخ پر پرامن انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنانے کے لیے تمام وسائل اور سکیورٹی آلات بروئے کار لائے جائیں گے اور امید ہے کہ وہ اس سلسلے میں کامیاب ہوں گے۔انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف سے جلد قسط ملنے کی امید ہے،آئی ایم ایف سے تب ہی جان چھوٹے گی جب ہم زیادہ سے زیادہ ٹیکس اکٹھا کریں گے جبکہ قرضوں کے درست استعمال سے ہی بہتر نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ایف بی آر نے اس مرتبہ جتنا ٹیکس اکٹھا کیا ہے وہ پہلے ماضی میں کبھی نہیں ہوا۔انہوں نے کہا کہ قانون کے دائرے میں رہ کر احتجاج سب کا حق ہے، قوانین اس لیے ہوتے ہیں تاکہ مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے،دہشتگردی کے خلاف جنگ میں سکیورٹی فورسز، پولیس اور عوام ہزاروں جانوں کی قربانیاں دے چکے ہیں،دہشتگردی کی نئی لہر کا پورے زور سے مقابلہ کیا جا رہا ہے ،

کاروبار کے فروغ کے لیے پنجاب حکومت کے اقدامات قابل تعریف ہیں

، وفاقی حکومت کاروبار کے لیے تمام سہولیات فراہم کرے گی۔پوری طرح کوشاں ہیں کہ انتخابات کا انعقاد پر امن ماحول میں ہو اور8فروری کو وٹ ڈالنے جائوں گا۔نجی ٹی وی کے مطابق نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ جب منصب سے ہٹوں گا تو پھرکھل کربات کروں گا

، مجھے طعنے نہ دیں کہ بلوچ یاد رکھیں گے، میرا بلوچوں سے تین نسلوں کا تعلق ہے، لاپتہ افراد کے لواحقین پہلے بھی احتجاج کرتے رہے ہیں آئندہ بھی کریں گے،

بلوچستان میں علیحدگی پسندوں سے کوئی سوال کریں تو وہ گولی ماردیتے ہیں۔انہوںنے کہاکہ احتجاج کرنے والوں کے ساتھ پولیس کی جھڑپ کو غزہ سے جوڑاجارہا ہے

، آزادی رائے سب کا حق ہے سوشل میڈیا پر پابندی نہیں ہونی چاہیے، میں نگران وزیراعظم ہوں میں تو جانے والا ہوں، میرامینڈیٹ نہیں کہ سوشل میڈیا پر تنقید کرنے والوں کو جواب دوں، وزیراعظم بلوچستان سے ہے تو مجھ پر انگلیاں اٹھ رہی ہیں۔قبل ازیںتاجر برادری سے گفتگو کرتے ہوئے نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ حکومت اور نجی شعبہ کے اشتراک سے ترقیاتی ماڈل قومی اقتصادی ترقی کے لیے مثبت نتائج کا حامل ہو سکتا ہے

،کاروبار کے فروغ کے لیے پنجاب حکومت کے اقدامات قابل تعریف ہیں،وفاقی حکومت کاروبار کے لیے تمام سہولیات فراہم کرے گی۔ اس موقع پر نگران وزیر اعلی پنجاب محسن نقوی،چیف سیکرٹری پنجاب،آئی جی پنجاب ،بزنس کمیونٹی سمیت دیگر بھی موجود تھے۔انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ

بزنس فسیلیٹیشن سینٹر پنجاب حکومت کا ایک احسن اقدام ہے جہاں ایک ہی چھت تلے تمام سہولیات میسر ہوں گی،وفاقی حکومت کاروبار کے لئے تمام سہولیات فراہم کرے گی۔

انہوں نے کہا کہ کاروباری برادری اور حکومت کے درمیان بہتر تعلقات سے روزگار کے مواقع، ٹیکس اور جی ڈی پی کی شرح نمو کو بڑھانے میں مدد ملے گی

۔بزنس فسیلیٹیشن سینٹر کے خیال کو سراہتے ہوئے نگران وزیر اعظم نے کہا کہ وفاقی حکومت کاروبار کے فروغ کیلئے اپنا کردار ادا کرے گی اور اسے سندھ،خیبرپختونخوا ہ اور بلوچستان تک بڑھایا جائے گا۔انہوں نے وفاقی حکومت کی جانب سے کاروباری شعبے کے لیے متعدد اقدامات کے ذریعے ہر طرح کی سہولت فراہم کرنے کا بھی یقین دلایا۔ انہوں نے کاروبار کے فروغ کے لیے وزیر اعلی پنجاب محسن نقوی اور انکی ٹیم کی کوششوں کو سراہا۔

نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے لاہور بزنس فیسیلی ٹیشن سینٹر کا دورہ کیا،

دورے میں وزیراعظم کو بزنس فیسیلی ٹیشن سینٹر کے مختلف امور اور اب تک کی پیشرفت کے حوالے سے بریفنگ دی گئی۔وزیراعظم نے صوبے میں کاروباری برادری کی فلاح و بہبود کے لیے حکومت پنجاب کے زیر قیادت بزنس فیسیلی ٹیشن سینٹر کے کردار کو سراہا اور کہا کہ ملک کے باقی شہروں میں لاہور بزنس فیسیلی ٹیشن سینٹر کی طرز پر ادارے تعمیر کرنا ملکی معیشت کے لیے سود مند ثابت ہوگا۔