کوئٹہ: بلوچ یکجہتی کمیٹی کی سربراہ ڈاکٹرماہ رنگ بلوچ نے کہاہے کہ ریاست گونگا اور بہرا ہے،بالاچ بلوچ کیلئے نکلنے والا لانگ مارچ تمام مظلوم بلوچوں کی آواز بن گیا، بلوچ مائیں اپنے بیٹوں کی پیدائش پر روتی ہیں تڑپتی ہیں بلوچ جذباتی نہیں نظریاتی ہے، یہ ہم پر کبھی رحم نہیں کریں گے،
میں رہوں یا نہ رہوں یہ ہماری تحریک آپ کیلئے امانت ہے،اسلام آباد میں بلوچوں کیلئے انصاف نہیں اسلام آباد میں ہمارے قاتلوں کو ہمارے سامنے بیٹھایاگیا۔پشتون تحفظ موومنٹ کے سربراہ منظور پشتین ہمارے پاس یکجہتی کیلئے آرہا تھا لیکن انہیں گرفتارکیاگیا،بلوچوں کو اب اپنی صف بندی کرنا ہوگی ۔ان خیالات کااظہار انہوں نے کوئٹہ کے سریاب میں شاہوانی اسٹیڈیم میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے زیراہتمام منعقدہ جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
اس موقع پر ماما قدیر بلوچ، حاجی عبدالحق ،ڈاکٹرمنظور بلوچ،
سیمی دین محمد بلوچ،نور باچا،ودیگر نے بھی خطاب کیا۔ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے اپنے خطاب میں کہا کہ ریاست کو اس کی زبان میں سمجھانا بہت ضروری ہے، کیونکہ یہ گونگے اور بہرے ہیں اور ہمارے پاس اپنی زمین پر مر مٹنے والے ہتھیار ہیں۔
ان کو یہ نہیں معلوم کو یہ جن سامراجیوں کے تلوے چاٹتے ہیں بلوچ نے ان کو بھی خاک چٹوائی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس ریاست کے پاس ایک طاقت تھی کہ کس طرح بلوچوں کو ڈرایا جائے جس کیلئے اس نے اپنی پوری مشینری استعمال کی، ریاست نے چن چن کر انہیں اٹھایا، چن چن کر ان کی لاشیں پھینکی گئیں مگر وہ ڈرا نہ سکے اس قوم کو ، اس خوف کو ہم نے توڑ دیا ہے۔
مجھے آج اس جلسے میں انقلاب کی بو آرہی ہے وہ انقلاب جس کا خواب ہمارے شہیدوں نے دیکھا۔ جس کے لیے یہ مائیں 15 سال سے تڑپ رہی ہیں، ان کی آنکھوں کے آنسوں خشک ہوچکے ہیں۔ مائیں اپنے بیٹوں کی پیدائش پر روتی ہیں تڑپتی ہیں۔ ریاست کے خونخواروں نے بلوچ نوجوانوں کا خون پیا ہے۔
ڈاکٹر ماہ رنگ نے کہا کہ تاریخ میں یہ لکھا جائے گا کہ بلوچوں نے ریاستی طاقت کو شکست دی۔ یہ ہمارے متعدد شہدا کا خون اور قربانیوں کا ثمر ہے کہ ہم آج ریاست کے ظلم و جبر کیخلاف کھڑے ہیں۔ تربت سے نکلنے والا لانگ مارچ جو بالاچ کیلئے نکلا تھا وہ تمام مظلوم بلوچوں کی آواز بن گیا، ہم میڑھ لیکر آئے ہیں آپ کے پاس کہ اپنے معصوم نوجوانوں کیلئے ایک ہوجا۔ جب ہم اسلام آباد کیلئے نکلے تو ہمیں پتا تھا کہ ہماری بات نہیں سنی جائیگی،
ہم نے اس ریاست کو پوری دنیا کے سامنے ایکسپوز کردیا ہے۔ڈاکٹر ماہ رنگ نے کہا کہ بلوچ جذباتی نہیں نظریاتی ہے، یہ ہم پر کبھی رحم نہیں کریں گے،
میں رہوں یا نہ رہوں یہ ہماری تحریک آپ کیلئے امانت ہے۔ یہ روایتی جلسہ گاہ نہیں یہ کوئی روایتی جلسہ نہیں یہ تحریک دنیا بھر کے بلوچوں کی آواز ہے۔
بلوچستان میں جاری جبری گمشدگیوں، فوجی آپریشن، قتل و غارت اور بلوچوں کو مہاجرین کی طرح زندگی گزارنے پر مجبور کرنے کیخلاف ہے۔ یہ دھرتی میر محراب کی دھرتی ہے، یہ عبدالعزیز کرد کی ہے، یہ دھرتی نواب خیر بخش، بالاچ، بانو کریمہ کی دھرتی ہے۔انہوں نے کہا کہ آ دیکھو آج اس عوامی طاقت کو دیکھو، ان اندھی عدالتوں سے ہمیں دبانے کی کوشش کی ریاست کی تمام پالیسیوں کیخلاف یکجا ہوجا،
قومی زندگی کیلئے اپنی زندگی کو وقف کردو، اور وہ لوگ جنہوں بلوچوں کو تفریق کرنے کی کوشش کی ہم ان کو یہ پیغام دیں گے کہ آج بلوچ متحد ہے۔
بلوچ عوام کو اب اپنی صف بندی کرنا ہوگی۔انہوں نے کہا کہ یہ 1948 نہیں یا1971نہیں یہ 2024 ہے اور یہ بنگال نہیں یہ بلوچستان ہے، یہ تحریک بلوچستان کی بقا کی تحریک ہے اور یہ تحریک اسی طرح چلتی رہے گی۔
انہوں نے کہاکہ اسلام آباد پہنچے تو پتہ چلا کہ اسلام آباد میں بلوچوں کیلئے انصاف نہیں ،پاکستان کاآئین ایک کاغذات کاٹکڑا بھی نہیں بلوچ یکجہتی کمیٹی نے ریاست کو بے نقاب کیاہم 80سالہ بوڑھی خواتین کے ساتھ اسلام آباد گئے کہ ہمارے نوجوانوں کو اپنی عدالتوں میں پیش کیاجائے اسلام آباد میں بیٹھے ہوئے نام نہاد حکمرانوں بلوچوں کوانصاف نہیں دے سکتے۔
اسلام آباد میں ہمارے قاتلوں کو ہمارے سامنے بیٹھایاگیا۔پشتون تحفظ موومنٹ کے سربراہ منظور پشتین ہمارے پاس یکجہتی کیلئے آرہا تھا لیکن انہیں گرفتارکیاگیا۔آخر میں لاپتہ افراد کے لواحقین کوماہ رنگ بلوچ اور شاجی عبدالحق نے بلوچی چادر پہنائے ۔