|

وقتِ اشاعت :   February 15 – 2024

ملک میں انتخابات اور اس کے نتائج پر سیاسی ومذہبی جماعتوں کے شدید تحفظات نے ایک نئی جنگ چھیڑ دی ہے اور یہ معاملہ اب سڑکوں پر چل تو رہا ہے مگر ایوان ، حکومت سازی اور اس کے بعد بھی بننے والی حکومت کے لیے درد سربنے گا۔

اتنا آسان کسی بھی اتحادی جماعت کے لیے نہیںہوگا مگر ن لیگ ، پیپلزپارٹی، ق لیگ اور ایم کیوایم پاکستان نے حکومت بنانے کا فیصلہ کرلیا ہے جبکہ مولانا فضل الرحمان الیکشن نتائج سے سخت خفا ہیں۔ ان کی جماعت کی جانب سے بلوچستان، سندھ،کے پی کے میں احتجاج جاری ہے۔ مولانافضل الرحمان کے ساتھ گزشتہ روز شہباز شریف نے ملاقات بھی کی مگر مولانافضل الرحمان نے مثبت جواب نہیں دیا بلکہ جمعیت علماء اسلام (جے یو آئی) نے 8 فروری کے انتخابات کو مسترد کردیا۔

مولانا فضل الرحمان کا کہنا ہے کہ ان انتخابات میں دھاندلی کے ریکارڈ بنے، انتخابی عمل یرغمال بنا رہا، الیکشن کو شفاف قرار دینے کے الیکشن کمیشن کے بیان کو مسترد کرتے ہیں، اب فیصلے ایوان میں نہیں میدان میں ہوں گے۔انہوں نے اپوزیشن میں بیٹھنے کا اعلان کرتے ہوئے ن لیگ کو مشورہ دیا کہ آئیں اپوزیشن میں بیٹھتے ہیں۔پہلے بھی ہم اسمبلی میں رہے اور ساتھ تحریک بھی جاری رہی،

ن لیگ جو امیدیں لے کر نوازشریف کولے کر آئی تھی وہ پوری نہیں ہوئی،ن لیگ کو حکومت کے لیے وہ حجم نہیں مل سکا۔

ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کا روز اول سے کردار مشکوک رہا ہے، یہ ہمارے امیدواروں کی درخواستوں پر سماعت سے انکارکررہا ہے۔مولانا نے کہا کہ 25 فروری بلوچستان، 27 فروری کو خیبرپختونخوا ، 3 مارچ کراچی جبکہ 5 مارچ کو لاہور میں میٹنگ کریں گے۔

گزشتہ روز اسلام آباد میں مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین کی رہائش گاہ پر بڑی سیاسی جماعتوں ن لیگ،

پیپلزپارٹی، ایم کیوایم، ق لیگ سمیت دیگر قائدین کے درمیان اہم بیٹھک لگی جس میں حکومت بنانے کے حوالے سے بات چیت کی گئی، میاں محمد نواز شریف نے شہباز شریف کو وزیراعظم جبکہ مریم نواز کو پنجاب کے وزارت اعلیٰ کے لیے نامزد کردیا ہے ،

سیاسی جماعتوں کے قائدین نے شہباز شریف کے نام پر اتفاق کرلیا ہے اور مرکز میں حکومت سازی کی یقین دہانی بھی کرادی ہے۔ اطلاعات کے مطابق وفاقی کابینہ میں شمولیت کے لیے حکومتی اتحاد میں شامل جماعتوں کی کمیٹیاں فیصلہ کریں گی۔ پیپلزپارٹی کی قیادت کامؤقف ہے پہلے مرحلے میں پی پی وفاقی کابینہ کا حصہ نہیں بنے گی جبکہ دوسرے مرحلے میں پیپلزپارٹی کابینہ کا حصہ بن سکتی ہے۔ قومی اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) 79، پیپلزپارٹی 54، متحدہ قومی موومنٹ 17، مسلم لیگ (ق) 3، استحکام پاکستان پارٹی 2 اور بلوچستان عوامی پارٹی نے ایک نشست حاصل کی ہے۔اس اتحاد کو مجموعی طور پر 156 ارکان کی حمایت حاصل ہے اور مخصوص نشستیں ملنے کے بعد حکومت بنانے کیلئے 172 کا ہندسہ باآسانی عبور کرجائے گا۔پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد ارکان کی تعداد 92 ہے اور دیگر جماعتوں نے ایک ایک نشست حاصل کی ہے۔بہرحال آئندہ بننے والی حکومت کے لیے چیلنجز بہت زیادہ ہیں خاص کر معاشی اور سیاسی استحکام ان کی اولین ترجیح ہوگی مگر یہ سب کچھ بہت آسانی سے نہیں ہوگا۔ مرکز میں ہنگامہ آرائی جیسی صورتحال بنی رہے گی ،

پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کی بڑی تعداد ہر قانون سازی کے دوران رخنہ ڈالنے کی کوشش کرے گی مگر ساتھ ہی اتنی بڑی اتحاد کو خوش رکھنے کے لیے شہباز شریف کو اپنے وزارت عظمیٰ کی کرسی بچانے کے لیے بھی پریشانی کا سامنا کرناپڑے گا ۔ بہرحال ترجیح یہی ہونی چاہئے کہ ملک کو موجودہ بحرانی کیفیت سے نکالا جائے اور اس کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو اختلافات بالائے طاق رکھ کر دار ادا کرناہوگا، ملک مزید معاشی بحران برداشت نہیں کرسکتی۔